سرفرازاحمدسحر
محفلین
منصف بھی شاہ کے اب زیرِ اثر ہوا ہے
دستور شہر کا یوں زیر و زبر ہوا ہے
پربت سے اُس طرف تھی وادی محبتوں کی
ہم سے یہ نفرتوں کا پربت نہ سر ہوا ہے
رخسار پر کھڑا تھا دامن پہ آگرا ہے
اک اشک گھر سے نکلا تو در بدر ہوا ہے
بدلوں گا اس جہاں کو ٹھانی ہوئی تھی میں نے
میرا قیام لیکن کچھ مختصر ہوا ہے
غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بن گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے
اپنی بقا، فنا میں اوروں کی جانتے ہیں
تہذیب کا یہاں طے اُلٹا سفر ہوا ہے
خوں سے چمن کو اپنے مالی نکھارتا ہے
تجھ کو غرض بس اتنی کتنا ثمر ہوا ہے
ساحل سے زندگی کے دیکھوں تو لگ رہا ہے
بچپن تھا اک جزیره جس سے گزر ہوا ہے
دستور شہر کا یوں زیر و زبر ہوا ہے
پربت سے اُس طرف تھی وادی محبتوں کی
ہم سے یہ نفرتوں کا پربت نہ سر ہوا ہے
رخسار پر کھڑا تھا دامن پہ آگرا ہے
اک اشک گھر سے نکلا تو در بدر ہوا ہے
بدلوں گا اس جہاں کو ٹھانی ہوئی تھی میں نے
میرا قیام لیکن کچھ مختصر ہوا ہے
غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بن گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے
اپنی بقا، فنا میں اوروں کی جانتے ہیں
تہذیب کا یہاں طے اُلٹا سفر ہوا ہے
خوں سے چمن کو اپنے مالی نکھارتا ہے
تجھ کو غرض بس اتنی کتنا ثمر ہوا ہے
ساحل سے زندگی کے دیکھوں تو لگ رہا ہے
بچپن تھا اک جزیره جس سے گزر ہوا ہے