منصف بھی شاہ کے اب زیرِ اثر ہوا ہے
دستور شہر کا یوں زیر و زبر ہوا ہے

پربت سے اُس طرف تھی وادی محبتوں کی
ہم سے یہ نفرتوں کا پربت نہ سر ہوا ہے

رخسار پر کھڑا تھا دامن پہ آگرا ہے
اک اشک گھر سے نکلا تو در بدر ہوا ہے

بدلوں گا اس جہاں کو ٹھانی ہوئی تھی میں نے
میرا قیام لیکن کچھ مختصر ہوا ہے

غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بن گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے

اپنی بقا، فنا میں اوروں کی جانتے ہیں
تہذیب کا یہاں طے اُلٹا سفر ہوا ہے

خوں سے چمن کو اپنے مالی نکھارتا ہے
تجھ کو غرض بس اتنی کتنا ثمر ہوا ہے

ساحل سے زندگی کے دیکھوں تو لگ رہا ہے
بچپن تھا اک جزیره جس سے گزر ہوا ہے
 
منصف بھی شاہ کے اب زیرِ اثر ہوا ہے
دستور شہر کا یوں زیر و زبر ہوا ہے

پربت سے اُس طرف تھی وادی محبتوں کی
ہم سے یہ نفرتوں کا پربت نہ سر ہوا ہے

رخسار پر کھڑا تھا دامن پہ آگرا ہے
اک اشک گھر سے نکلا تو در بدر ہوا ہے

بدلوں گا اس جہاں کو ٹھانی ہوئی تھی میں نے
میرا قیام لیکن کچھ مختصر ہوا ہے

غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بن گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے

اپنی بقا، فنا میں اوروں کی جانتے ہیں
تہذیب کا یہاں طے اُلٹا سفر ہوا ہے

خوں سے چمن کو اپنے مالی نکھارتا ہے
تجھ کو غرض بس اتنی کتنا ثمر ہوا ہے

ساحل سے زندگی کے دیکھوں تو لگ رہا ہے
بچپن تھا اک جزیره جس سے گزر ہوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
منصف بھی شاہ کے اب زیرِ اثر ہوا ہے
دستور شہر کا یوں زیر و زبر ہوا ہے
دستور شہر کا نہیں، ملک کا ہوتا ہے،
آئین ملک ایسے زیر.....
پربت سے اُس طرف تھی وادی محبتوں کی
ہم سے یہ نفرتوں کا پربت نہ سر ہوا ہے
نہ سر... اچھا نہیں بجائے 'سر نہیں' کے۔ فعلیہ جملے میں" نہ" استعمال کیا جانا محاورے کے خلاف ہے
یہ نفرتوں کا پربت کب ہم سے سر ہوا ہے
لیکن پربت دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا بھی اچھا نہیں
رخسار پر کھڑا تھا دامن پہ آگرا ہے
اک اشک گھر سے نکلا تو در بدر ہوا ہے
خیال اچھا ہے لیکن بیانیہ اچھا نہیں، دونوں مصرعوں کا اختتام "ہے" پر ہے، "تو" طویل کھنچنا بھی روانی میں اڑچن پیدا کر رہا ہے
بدلوں گا اس جہاں کو ٹھانی ہوئی تھی میں نے
میرا قیام لیکن کچھ مختصر ہوا ہے
ہوا ہے ردیف یہاں معنویت نہیں رکھتی،" کچھ مختصر" بھی معنی نہیں رکھتا
غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بن گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے
دوسرا مصرع رواں نہیں ،
اپنی بقا، فنا میں اوروں کی جانتے ہیں
تہذیب کا یہاں طے اُلٹا سفر ہوا ہے
پہلا مصرع واضح نہیں
خوں سے چمن کو اپنے مالی نکھارتا ہے
تجھ کو غرض بس اتنی کتنا ثمر ہوا ہے
استعمال کے اعتبار سے چمن پھولوں کے باغ کے لئے اور صرف باغ پھلوں کے باغ کے لئے استعمال ہوتا ہے
تقابل ردیفین "ہے" بھی پہلے مصرع میں غلط ہے

ساحل سے زندگی کے دیکھوں تو لگ رہا ہے
بچپن تھا اک جزیره جس سے گزر ہوا ہے
تقابل ردیفین!
 
دستور شہر کا نہیں، ملک کا ہوتا ہے،
آئین ملک ایسے زیر.....

نہ سر... اچھا نہیں بجائے 'سر نہیں' کے۔ فعلیہ جملے میں" نہ" استعمال کیا جانا محاورے کے خلاف ہے
یہ نفرتوں کا پربت کب ہم سے سر ہوا ہے
لیکن پربت دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا بھی اچھا نہیں

خیال اچھا ہے لیکن بیانیہ اچھا نہیں، دونوں مصرعوں کا اختتام "ہے" پر ہے، "تو" طویل کھنچنا بھی روانی میں اڑچن پیدا کر رہا ہے

ہوا ہے ردیف یہاں معنویت نہیں رکھتی،" کچھ مختصر" بھی معنی نہیں رکھتا

دوسرا مصرع رواں نہیں ،

پہلا مصرع واضح نہیں

استعمال کے اعتبار سے چمن پھولوں کے باغ کے لئے اور صرف باغ پھلوں کے باغ کے لئے استعمال ہوتا ہے
تقابل ردیفین "ہے" بھی پہلے مصرع میں غلط ہے


تقابل ردیفین!
الف عین بہت شکریہ سر سلامت رہیں
 
دستور شہر کا نہیں، ملک کا ہوتا ہے،
آئین ملک ایسے زیر.....

نہ سر... اچھا نہیں بجائے 'سر نہیں' کے۔ فعلیہ جملے میں" نہ" استعمال کیا جانا محاورے کے خلاف ہے
یہ نفرتوں کا پربت کب ہم سے سر ہوا ہے
لیکن پربت دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا بھی اچھا نہیں

خیال اچھا ہے لیکن بیانیہ اچھا نہیں، دونوں مصرعوں کا اختتام "ہے" پر ہے، "تو" طویل کھنچنا بھی روانی میں اڑچن پیدا کر رہا ہے

ہوا ہے ردیف یہاں معنویت نہیں رکھتی،" کچھ مختصر" بھی معنی نہیں رکھتا

دوسرا مصرع رواں نہیں ،

پہلا مصرع واضح نہیں

استعمال کے اعتبار سے چمن پھولوں کے باغ کے لئے اور صرف باغ پھلوں کے باغ کے لئے استعمال ہوتا ہے
تقابل ردیفین "ہے" بھی پہلے مصرع میں غلط ہے


تقابل ردیفین!
محترم الف عین السلام علیکم ورحمتہ اللہ
ایک بار پھر نظر کرم کی التماس ہے


السلام علیکم ورحمتہ ⁩ اللہ
حضرات ایک دفعہ پھر نظرِ کرم کی التماس ہے

منصف بھی شاہ کے اب زیرِ اثر ہوا ہے
دستور مملُکت کا زیر و زبر ہوا ہے

پربت سے اُس طرف تھی وادی محبتوں کی
یہ نفرتوں کاپربت کب ہم سے سر ہوا ہے

رخسار پر کھڑا تھا، دامن پہ آگرا اب
جو اشک گھر سے نکلا تھا، دربدر ہوا ہے

غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بنا گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے

پیڑوں کو سینچتا ہے خونِ جگر سے مالی
تجھ کو غرض بس اتنی کتنا ثمر ہوا ہے

اب آ کے لگ رہا ہے ساحل پہ زندگی کے
بچپن تھا اک جزیرہ جس سے گزر ہوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
رخسار پر کھڑا تھا، دامن پہ آگرا اب
جو اشک گھر سے نکلا تھا، دربدر ہوا ہے
دو ٹکڑوں میں منقسم بحر میں نکلا اور تھا، دو الگ ٹکڑوں میں رکھنا اچھا نہیں
گھر سے چلا تھا آنسو، وہ در بدر... کیا جا سکتا ہے میرے خیال میں
غیرت کے نام پر تھا الزامِ قتل جس پر
سرپنچ بنا گیا وہ یوں معتبر ہوا ہے
بن کو بنا کردینے سے تو بحر میں نہیں رہا دوسرا مصرع!
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں
 
Top