سرفرازاحمدسحر
محفلین
لازم سپہ میں کوئی قتات مستقل ہے
یہ راستوں پہ میرے جو گھات مستقل ہے
دنیا یہ عارضی ہیں سب متفق ہیں اس پر
اب اختلاف اس پر اک ذات مستقل ہے
یہ بات مانتا ہوں لمبی ہے جبر کی رات
پر مانتا نہیں میں ، یہ رات مستقل ہے
مجھ کو دبانے والے سب ہاتھ عارضی ہیں
مجھ کو اٹھانے والا اک ہاتھ مستقل ہے
رشتہ نیا ہو تو میں سمجھوں گریز تیرا
کیا مجھ سے ڈر تجھے ہے؟ محتاط مستقل ہے
لشکر میں کھلبلی ہے، پلٹا ہوں میں تو اس کے
سمجھا تھا جس نے میری اک مات مستقل ہے
اشکوں میں بہہ گئی ہیں جذبات کی کئی ایک
لیکن خلوص کی اب بھی دھات مستقل ہے
پیتے ہیں جھوم کر اب بھی جام زہر کے وہ
اہلِ خرد کا مرشد سقراط مستقل ہے
یہ راستوں پہ میرے جو گھات مستقل ہے
دنیا یہ عارضی ہیں سب متفق ہیں اس پر
اب اختلاف اس پر اک ذات مستقل ہے
یہ بات مانتا ہوں لمبی ہے جبر کی رات
پر مانتا نہیں میں ، یہ رات مستقل ہے
مجھ کو دبانے والے سب ہاتھ عارضی ہیں
مجھ کو اٹھانے والا اک ہاتھ مستقل ہے
رشتہ نیا ہو تو میں سمجھوں گریز تیرا
کیا مجھ سے ڈر تجھے ہے؟ محتاط مستقل ہے
لشکر میں کھلبلی ہے، پلٹا ہوں میں تو اس کے
سمجھا تھا جس نے میری اک مات مستقل ہے
اشکوں میں بہہ گئی ہیں جذبات کی کئی ایک
لیکن خلوص کی اب بھی دھات مستقل ہے
پیتے ہیں جھوم کر اب بھی جام زہر کے وہ
اہلِ خرد کا مرشد سقراط مستقل ہے