غزل بغرض اصلاح

الجھا ہے جو انکار سے اقرار مسلسل
اک حشر بپا ہے پسِ دیوار مسلسل

کانٹے ہیں یہاں پھول سے بے زار مسلسل
مجھ سے ہیں خفا میرے سبھی یار مسلسل

جب زخم مری پشت پہ آیا تو میں سمجھا
لڑتا رہا دشمن سے میں بے کار مسلسل

بنیاد جو نفرت کی کبھی اٌس نے تھی ڈالی
میں اٌس پہ اٌٹھاتا رہا دیوار مسلسل

بازار میں اب بکتی ہے حرمت بھی قلم کی
اس شہر میں جاری ہے یہ بیوپار مسلسل
 
السلام علیکم ورخمتہ اللہ
محترم استاد قبلہ الف عین صاحب
محترم راحیل فاروق صاحب
اور دیگر تمام احباب سے ایک بار پھر اصلاح کی درخواست ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب غزل ہے سرفراز صاحب ۔ خوب طبع رواں ہے۔ لہجہ بھی خوب توانا ۔
بنیاد جو نفرت کی کبھی اٌس نے تھی ڈالی
یہاں "تھی ڈالی" کے سبب بیانیہ کچھ کمزور لگا ۔ اسے رواں کریں تو بہتر ہو مثلا "رکھی تھی"۔ بنیاد ڈالنا اوربنیاد رکھنا دونوں مقبول محوارے ہیں ۔
اصلاح کی کوئی خاص گنجائش نہیں لگتی۔
 
بہت خوب غزل ہے سرفراز صاحب ۔ خوب طبع رواں ہے۔ لہجہ بھی خوب توانا ۔

یہاں "تھی ڈالی" کے سبب بیانیہ کچھ کمزور لگا ۔ اسے رواں کریں تو بہتر ہو مثلا "رکھی تھی"۔ بنیاد ڈالنا اوربنیاد رکھنا دونوں مقبول محوارے ہیں ۔
اصلاح کی کوئی خاص گنجائش نہیں لگتی۔
بہت بہت شکریہ محترم سید عاطف علی صاحب اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ نظرِ کرم کا بہت بہت شکریہ
 
Top