غزل-بقدرِ حوصلہ کوئی کہیں، کوئی کہیں تک ہے -سجاد باقر رضوی

غزل

بقدرِ حوصلہ کوئی کہیں، کوئی کہیں تک ہے!
سفر میں راہ و منزل کا تعین بھی یہیں تک ہے

نہ ہو انکار تو اثبات کا پہلو ہی کیوں نکلے
مرے اصرار میں طاقت فقط تیری نہیں تک ہے

اُدھر وہ بات خوشبو کی طرح اڑتی تھی گلیوں میں
اِدھر میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ہم نشیں تک ہے

نہیں کوتاہ دستی کا گلہ اتنا غنیمت سے
پہنچ ہاتھوں کی اپنے، اپنے جیب و آستیں تک ہے

سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی
غلامو ! یہ نہ سمجھو داغِ رسوائی جبیں تک ہے

پھر آگے مراحل طے ہو رہیں گے ہمتِ دل سے
جہاں تک روشنی ہے، خوف تاریکی وہیں تک ہے

الٰہی بارش ابرِ کرم ہو فضل دونی ہو ! !
کہ باقر کی تو آمد بس اسی دل کی زمیں تک ہے

سجاد باقر رضوی​
 

محمد وارث

لائبریرین
سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی
غلامو ! یہ نہ سمجھو داغِ رسوائی جبیں تک ہے

واہ واہ واہ، لاجواب۔
 

فاتح

لائبریرین
نہ ہو انکار تو اثبات کا پہلو ہی کیوں نکلے
مرے اصرار میں طاقت فقط تیری نہیں تک ہے

نہیں کوتاہ دستی کا گلہ اتنا غنیمت سے
پہنچ ہاتھوں کی اپنے، اپنے جیب و آستیں تک ہے

سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی
غلامو ! یہ نہ سمجھو داغِ رسوائی جبیں تک ہے​

سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ہے پیاسا صحرا صاحب۔
درج ذیل شعر میں شاید کتابت کی غلطی ہے۔ وزن کے اعتبار سے "مراحل" کی بجائے شاید "مرحلے" ہونا چاہیے تھا۔
پھر آگے مراحل طے ہو رہیں گے ہمتِ دل سے
جہاں تک روشنی ہے، خوف تاریکی وہیں تک ہے​

 
[/center]
سبحان اللہ! عمدہ انتخاب ہے پیاسا صحرا صاحب۔
درج ذیل شعر میں شاید کتابت کی غلطی ہے۔ وزن کے اعتبار سے "مراحل" کی بجائے شاید "مرحلے" ہونا چاہیے تھا۔

[/center]

السلام علیکم
محترم میرے پاس جو انتخاب ہے اس میں مراحل ہی ہے ۔ ابھی دیکھا اور تصدیق کی ہے ۔ اب ہو سکتا ہے کہ کاتب کی غلطی ہو ۔آگے جیسے آپ کا حکم ہو ۔
 
Top