قمر جلالوی غزل : بوسۂ حال کی قیمت مری جاں ٹھہری ہے - استاد قمر جلالوی

غزل
بوسۂ خال کی قیمت مری جاں ٹھہری ہے
چیز کتنی سی ہے اور کتنی گراں ٹھہری ہے

چھیڑ کر پھر مجھے مصروف نہ کر نالوں میں
دو گھڑی کے لئے صیّاد زباں ٹھہری ہے

آہِ پُر سوز کو دیکھ اے دلِ کمبخت نہ روک
آگ نکلی ہے لگا کر یہ جہاں ٹھہری ہے

صبح سے جنبشِ ابرو ومژہ سے پہیم
نہ ترے تیر رُکے ہیں نہ کماں ٹھہری ہے

دم نکلنے کو ہے ایسے میں وہ آ جائیں قمرؔ
صرف دم بھر کے لئے روح رواں ٹھہری ہے
اُستاد قمر جلالوی
 
آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
دَم نکلنے کو ہے، ایسے میں وہ آ جائیں قمرؔ !
صِرف، دَم بھر کے لئے رُوحِ رَواں ٹھہری ہے

کیا خُوب !

بوسۂ حال ، بوسۂ گال ؟
 

طارق شاہ

محفلین
نوازش جواب کے لیے :)
خ پر نقطہ نہ ہونے کی وجہ سے حال ہے شاید
ہونا یوں چاہیے:
بوسۂ خال کی قیمت مِری جاں ٹہھری ہے
دوسرامصرعہ میں گراں کے مقابل "چیز کتنی سی" خال ہی کو( ہیّت میں حقیر ہونے کی وجہ سے) صحیح گردانتی ہے
 
Top