غزل: بڑھ گیا ظلم و ستم اتنا کہ روٹھا بادل ٭ تابش

ایک تجربہ، ایک کاوش احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر:

بڑھ گیا ظلم و ستم اتنا کہ روٹھا بادل
روز بن برسے گزرتا ہے گرجتا بادل

یہ برستا ہے نہ چھَٹتا ہے مری آنکھوں سے
کب سے ٹھہرا ہے تری یاد کا گہرا بادل

پھر کوئی آہِ رسا چرخِ کہن تک پہنچی
آج کی رات بہت ٹوٹ کے برسا بادل

بغض، کینہ و کدورت سے کرو پاک یہ دل
چھَٹ نہ جائے کہیں رحمت کا برستا بادل

کشمکش میں ہوا دونوں کو خسارہ تابشؔ
نورِ خورشید ہوا ماند، تو بکھرا بادل

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 
ایک تجربہ، ایک کاوش احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر:

بڑھ گیا ظلم و ستم اتنا کہ روٹھا بادل
روز بن برسے گزرتا ہے گرجتا بادل

نہ برستا ہے نہ چھٹتا ہے مری آنکھوں سے
کب سے ٹھہرا ہے تری یاد کا گہرا بادل

پھر کوئی آہِ رسا چرخِ کہن تک پہنچی
آج کی رات بہت ٹوٹ کے برسا بادل

بغض، کینہ و کدورت سے کرو پاک یہ دل
چھَٹ نہ جائے کہیں رحمت کا برستا بادل

کشمکش میں ہوا نقصان ہمیشہ تابشؔ
نورِ خورشید ہوا ماند، تو بکھرا بادل

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
خوبصورت خوب صورت
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !

ماشاء اللہ تابش بھائی آج کل لگتا ہے آمد کا موسم ہے -

بڑھ گیا ظلم و ستم اتنا کہ روٹھا بادل
روز بن برسے گزرتا ہے گرجتا بادل

واہ -

نہ برستا ہے نہ چھَٹتا ہے مری آنکھوں سے
کب سے ٹھہرا ہے تری یاد کا گہرا بادل

یوں بھی ایک صورت ہے :

چھٹتا ہے اور نہ برستا ہے مری آنکھوں سے
دل میں ٹھہرا ہے تری یاد کا گہرا بادل
------------
پھر کوئی آہِ رسا چرخِ کہن تک پہنچی
آج کی رات بہت ٹوٹ کے برسا بادل

"پھر" اور "آج" اضافی سے لگے

یوں بھی کیا جاسکتا ہے :

کیا کوئی آہِ رسا چرخِ کہن تک پہنچی؟
جانے کیوں رات بہت ٹوٹ کے برسا بادل؟
-------

بغض، کینہ و کدورت سے کرو پاک یہ دل
چھَٹ نہ جائے کہیں رحمت کا برستا بادل

بغض ،کینہ اور کدورت قریب قریب ہم معنی ہیں -لہٰذا مصرع بحر کی خانہ پری لگا -میرے تو خیال سے مصرع بدل دیں -

کشمکش میں ہوا نقصان ہمیشہ تابشؔ
نورِ خورشید ہوا ماند، تو بکھرا بادل

یہ شعر سمجھ نہیں آیا -پہلا مصرع تو واضح ہے، جس سے یوں لگتا ہے کہ آپ "چپقلش" کہنا چاہ رہے ہیں کیونکہ کشمکش کے تو فائدے بھی بہت ہیں جیسے کسی نے کیا خوب کہا ہے :

ہے شوق و ضبطِ شوق میں دن رات کشمکش
دل مجھ کو ،میں ہوں دل کو پریشاں کیے ہوئے
 
Top