غزل:بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارا، کیا بنے گا- اختر عثمان

غزل
بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارا، کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا

بڑوں پر منکشف تھی سہل انگاری ہماری
ہمیں اجداد کہتے تھے ، تمہارا کیا بنے گا

ابھی سے خال و خد روشن ہوئے جاتے ہیں اس کے
کبھی جو چاک پر آیا تو گارا کیا بنے گا

حِرائے ذہن میں اُترا ہے جبریلِ تخیل
بتاتا ہے کہ آئندہ نظارہ کیا بنے گا

نئے سالار سے زنداں میں بچے پوچھتے ہیں
ہمارے شہر کے فاتح، ہمارا کیا بنے گا

ہوا کے شر سے دامن ہی بچائے تو بچائے
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا

یہ آب و تاب مجھ میں ازل ہی سے تھی اخترؔ
مرے تیور بتاتے تھے ستارہ کیا بنے گا
اختر عثمان
 
بھنور، برہم ہوائیں، گم کنارا، کیا بنے گا
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا

ہوا کے شر سے دامن ہی بچائے تو بچائے
دریدہ بادباں اپنا سہارا کیا بنے گا

ایک مصرع دو شعروں میں استعمال ہوا ہے؟
 
Top