عرفان علوی
محفلین
احبابِ گرامی، سلام عرض ہے !
آپ سب کو رمضان کریم کی مبارکباد ! آج ایک پرانی مسلسل غزل ، جسے آپ حمد بھی کہہ سکتے ہیں ، لے کر حاضر ہوں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
بھولنے والے خدا کا فضل ، ہائے یاد کر
پیشتر اِس كے کہ تجھ کو موت آئے ، یاد کر
کون تھا تیرے سوا موجود ماں كے پیٹ میں
کس نے تیرے جسم كے اعضا بنائے ، یاد کر
کس نے ڈالی جان سازِ زندگانی میں بھلا ؟
کس نے اس میں دھڑکنوں كے سُر جگائے ، یاد کر
کس كے دم سے پائی تو نے دید کی قوت ، بتا
کس نے رنگ و نور دنیا كے دکھائے ، یاد کر
کس نے تیرے ذہن کو دی دولتِ فہم و ذكا ؟
کس نے تجھ کو بھید ہستی كے بتائے ، یاد کر
کس نے پیدا کی زمیں پر یہ فضا ، آب و ہوا ؟
کس نے شیریں رس بھرے میوے کھلائے ، یاد کر
کون دیتا ہے جہاں کو صبح کی کرنوں کا نور ؟
کون لاتا ہے یہاں راتوں كے سائے ، یاد کر
کون ہے جس نے بنائیں آسْماں کی وسعتیں ؟
کس نے اس پر خوش نما تارے سجائے ، یاد کر
کس نے لہروں پر سمندر کی کیا تجھ کو سوار؟
کس نے تسخیرِ فلک كے گُر سکھائے ، یاد کر
کس نے بدلا تیرے خوابوں کو حقیقت میں ، یہ سوچ
کس كے دم سے خواب آنكھوں میں سمائے ، یاد کر
یاد کر عابدؔ ذرا اک بار ساری نعمتیں
پیشتر اِس كے کہ تجھ کو موت آئے ، یاد کر
نیازمند،
عرفان عابدؔ
آپ سب کو رمضان کریم کی مبارکباد ! آج ایک پرانی مسلسل غزل ، جسے آپ حمد بھی کہہ سکتے ہیں ، لے کر حاضر ہوں . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
بھولنے والے خدا کا فضل ، ہائے یاد کر
پیشتر اِس كے کہ تجھ کو موت آئے ، یاد کر
کون تھا تیرے سوا موجود ماں كے پیٹ میں
کس نے تیرے جسم كے اعضا بنائے ، یاد کر
کس نے ڈالی جان سازِ زندگانی میں بھلا ؟
کس نے اس میں دھڑکنوں كے سُر جگائے ، یاد کر
کس كے دم سے پائی تو نے دید کی قوت ، بتا
کس نے رنگ و نور دنیا كے دکھائے ، یاد کر
کس نے تیرے ذہن کو دی دولتِ فہم و ذكا ؟
کس نے تجھ کو بھید ہستی كے بتائے ، یاد کر
کس نے پیدا کی زمیں پر یہ فضا ، آب و ہوا ؟
کس نے شیریں رس بھرے میوے کھلائے ، یاد کر
کون دیتا ہے جہاں کو صبح کی کرنوں کا نور ؟
کون لاتا ہے یہاں راتوں كے سائے ، یاد کر
کون ہے جس نے بنائیں آسْماں کی وسعتیں ؟
کس نے اس پر خوش نما تارے سجائے ، یاد کر
کس نے لہروں پر سمندر کی کیا تجھ کو سوار؟
کس نے تسخیرِ فلک كے گُر سکھائے ، یاد کر
کس نے بدلا تیرے خوابوں کو حقیقت میں ، یہ سوچ
کس كے دم سے خواب آنكھوں میں سمائے ، یاد کر
یاد کر عابدؔ ذرا اک بار ساری نعمتیں
پیشتر اِس كے کہ تجھ کو موت آئے ، یاد کر
نیازمند،
عرفان عابدؔ