سعید سعدی
محفلین
بہاروں کے موسم کو کیا ہو گیا ہے
خزاں کا چلن عام سا ہو گیا ہے
کہیں پر زمیں خون میں تربتر ہے
کہیں آسماں سرخ سا ہو گیا ہے
ہر اک سمت ہے ظلمتوں کا بسیرا
اُجالا تو جیسے خفا ہو گیا ہے
سُلگتی ہوئی نفرتوں سے بھرے دل
محبت کا جذبہ ہوا ہو گیا ہے
مفادات اور مصلحت ، خود پرستی
فسوں کیسا جگ میں بپا ہو گیا ہے
چلو سو رہیں اوڑھ کر ہم زمیں کو
کہ دنیا میں جینا سزا ہو گیا ہے
خزاں کا چلن عام سا ہو گیا ہے
کہیں پر زمیں خون میں تربتر ہے
کہیں آسماں سرخ سا ہو گیا ہے
ہر اک سمت ہے ظلمتوں کا بسیرا
اُجالا تو جیسے خفا ہو گیا ہے
سُلگتی ہوئی نفرتوں سے بھرے دل
محبت کا جذبہ ہوا ہو گیا ہے
مفادات اور مصلحت ، خود پرستی
فسوں کیسا جگ میں بپا ہو گیا ہے
چلو سو رہیں اوڑھ کر ہم زمیں کو
کہ دنیا میں جینا سزا ہو گیا ہے