علی فاروقی
محفلین
تجھے کیا بتائیں ہمدم اسے پوچھ مت دوبارہ
کسی اور کا نہیں تھا وہ قصور تھا ہمارا
وہ قتیلِ رقص و رم تھی، وہ شہیدِ زیرو بم تھی
مری موجِ مضطرب کو نہ ملا مگر کنارا
ہے ہزار بار بہتر ترے زُہدِ بے نمک سے
وہ گناہِ روح پرور بنے دل کا جو سہارا
جنہیں زندگی سے نفرت، جنہیں حسن سے عداوت
وہ خزاں میں خاک ہائیں گے بہار کا اشارہ
یہ ندائے لال و گوہر ہے بطونِ بحر و بر سے
ہمیں تاجِ خسروی کی نہیں بندشیں گوارا
جو رہا تو مردِ محنت کا عروجِ فن و حکمت
نہ فسونِ قیصری ہے نہ شکوہِ قصرِ دارا
دلِ دردمند انساں کی امید کا نشاں ہے
وہ فضا کے نیلگوں میں جو ہے سرخ اک ستارہ
کسی اور کا نہیں تھا وہ قصور تھا ہمارا
وہ قتیلِ رقص و رم تھی، وہ شہیدِ زیرو بم تھی
مری موجِ مضطرب کو نہ ملا مگر کنارا
ہے ہزار بار بہتر ترے زُہدِ بے نمک سے
وہ گناہِ روح پرور بنے دل کا جو سہارا
جنہیں زندگی سے نفرت، جنہیں حسن سے عداوت
وہ خزاں میں خاک ہائیں گے بہار کا اشارہ
یہ ندائے لال و گوہر ہے بطونِ بحر و بر سے
ہمیں تاجِ خسروی کی نہیں بندشیں گوارا
جو رہا تو مردِ محنت کا عروجِ فن و حکمت
نہ فسونِ قیصری ہے نہ شکوہِ قصرِ دارا
دلِ دردمند انساں کی امید کا نشاں ہے
وہ فضا کے نیلگوں میں جو ہے سرخ اک ستارہ