فرحان محمد خان
محفلین
غزل
تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دُور سمجھ
آپ اپنے سے اُلجھ جائیں تو معذور سمجھ
تو بھی تو وضعِ محبت سے ہے ناچار بہت
اُن کو بھی قاعدۂ ناز سے مجبور سمجھ
آبگینوں کی طبیعت کا تقاضا ہے شکست
دل شکستہ ہو کہ ثابت ہوں انھیں چُور سمجھ
ابھی اس راہ میں کچھ نقشِ قدم ملتے ہیں
شہرِ جاناں کو ابھی دُور بہت دُور سمجھ
جرگۂ حق طلباں منکرِ منصُور تھا کل
آج جو منکرِ حق ہو اُسے منصُور سمجھ
بے رُخی ہم سے مناسب نہیں اے لالۂ کوہ
ہم کو بھی سوختہ سامان سرِ طور سمجھ
ہائے وہ ولولۂ عرضِ تمنا میرا
اور اک شخص کا کہنا ہمیں معذور سمجھ
تجھ سے خفگی یہ روش ہم سے بہت دُور سمجھ
آپ اپنے سے اُلجھ جائیں تو معذور سمجھ
تو بھی تو وضعِ محبت سے ہے ناچار بہت
اُن کو بھی قاعدۂ ناز سے مجبور سمجھ
آبگینوں کی طبیعت کا تقاضا ہے شکست
دل شکستہ ہو کہ ثابت ہوں انھیں چُور سمجھ
ابھی اس راہ میں کچھ نقشِ قدم ملتے ہیں
شہرِ جاناں کو ابھی دُور بہت دُور سمجھ
جرگۂ حق طلباں منکرِ منصُور تھا کل
آج جو منکرِ حق ہو اُسے منصُور سمجھ
بے رُخی ہم سے مناسب نہیں اے لالۂ کوہ
ہم کو بھی سوختہ سامان سرِ طور سمجھ
ہائے وہ ولولۂ عرضِ تمنا میرا
اور اک شخص کا کہنا ہمیں معذور سمجھ
رئیس امروہوی