غزل : تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی

سعید سعدی

محفلین
تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی
اسی سے زندگی کا کچھ ہمیں احساس ہے باقی

دلوں کے ٹوٹنے کی گر کوئی آواز ہوتی تو
عجب ہوتا اگر کوئی سماعت تاب لے آتی

بنا ہے خاک سے لیکن نہ ہو گر خاکساری تو
برابر ہے ترا ہونا نہ ہونا پیکرِخاکی

زباں پہ لا کے دل کی بات میں زیرِ عتاب آیا
اگر چپ چاپ سہہ لیتا مری ہوتی نہ رسوائی

بہت واضح نظر آتے ہیں چہرے اس میں لوگوں کے
بنا لیتا ہوں آڑے وقت کو میں آئینہ سعدی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! بہت خوب! اگرچہ قوافی کچھ زیادہ ترنم نہیں لاسکے اس غزل میں ۔

تری فرقت کا موسم اور تری یادوں کی رعنائی
اسی سے زندگی کا کچھ ہمیں احساس ہے باقی

ادوسرے مصرع میں اسی سے کے بجائے انہی سے کا محل ہے ۔
 
Top