فرحان محمد خان
محفلین
غزل
اس نے قدم قدم پر کیا کیا نہ خود سری کی
تصویر ہے جو دل کے شیشے میں اک پری کی
بس اک نگاہ ہم پر اس نے جو سرسری کی
دل کی اجاڑ کھیتی پھر سے ہری بھری کی
مشگل گھڑی نے اکثر بے آبرو کیے ہیں
دیتے ہیں جو صدائیں ہر وقت رہبری کی
لاکھوں درود اس پر لاکھوں سلام اس پر
جس جس نے بھی جہاں میں آدم کی یاوری کی
ہوش و خرد تو تھے کب، ایماں سے بھی گئے اب
اک دلربا نے اللہ کیا خوب دلبری کی
حق مانگنے پہ کیا کیا ، فتوے ہوئے عنایت
حد ہے حضور! ویسے اس بندہ پروری کی
عشقِ بتاں میں ہم سا پیدا ہوا نہ ہو گا
مجنوں نے بھی ہماری کیا خاک ہمسری کی
ہرگز نہ بہتری کی امید کوئی رکھنا
مجھ کو یہ کہہ رہی ہے ،امید بہتری کی
موزوں غزل ہوئی جو فیضانِ میر جانو!
اپنی بساط کب تھی ایسی سخنوری کی
فرحان محمد خان
اس نے قدم قدم پر کیا کیا نہ خود سری کی
تصویر ہے جو دل کے شیشے میں اک پری کی
بس اک نگاہ ہم پر اس نے جو سرسری کی
دل کی اجاڑ کھیتی پھر سے ہری بھری کی
مشگل گھڑی نے اکثر بے آبرو کیے ہیں
دیتے ہیں جو صدائیں ہر وقت رہبری کی
لاکھوں درود اس پر لاکھوں سلام اس پر
جس جس نے بھی جہاں میں آدم کی یاوری کی
ہوش و خرد تو تھے کب، ایماں سے بھی گئے اب
اک دلربا نے اللہ کیا خوب دلبری کی
حق مانگنے پہ کیا کیا ، فتوے ہوئے عنایت
حد ہے حضور! ویسے اس بندہ پروری کی
عشقِ بتاں میں ہم سا پیدا ہوا نہ ہو گا
مجنوں نے بھی ہماری کیا خاک ہمسری کی
ہرگز نہ بہتری کی امید کوئی رکھنا
مجھ کو یہ کہہ رہی ہے ،امید بہتری کی
موزوں غزل ہوئی جو فیضانِ میر جانو!
اپنی بساط کب تھی ایسی سخنوری کی
فرحان محمد خان