فرحان محمد خان
محفلین
غزل
تقدیسِ ہُنر تُو مری تکمیل تو کر جا
آ ، آخری آیت کی طرح دل میں اُتر جا
یا رب ہو مرا دینِ غزل اور افق گیر
ہر لحظہ بُلند اس کا زمانے میں ہو در جا
یہ دُھوپ ہے وہ جس نے کبھی شاخ نہ دیکھی
چرچا ہے مری فکرِ سحر خیز کا ہر جا
کیا جانئے کیا بات ہے ذہنوں کے افق پر
بجلی نہیں چمکی ابھی بادل نہیں گر جا
اس شہر میں بکتے ہیں پرندوں کے نشیمن
اے طائرِ امید نے بُھولے سے اُدھر جا
اس ظلم کی بستی سے تو آندھی کی طرح اُٹھ
اس شہر کی گلیاں خس و خاشاک سے بھر جا
پھینکے تھے گُہر جن کی طرف ان کے سروں سے
اب موجِ بلا خیز کی مانند گُزر جا
ہے رقص کی خواہش تو بگولے کی طرح ناچ
صحرا ہے اگر تنگ خلاؤں میں بِپھر جا
حسرت سے نہ ہاتھوں کی لکیروں کی طرف دیکھ
جا وقت کے ماتھے کی شکن بن کے اُبھر جا
ساجدؔ کو لقب دے نہ مسیحائے غزل کا
اے خلق ! مرے معجزۂ فن سے مُکر جا
تقدیسِ ہُنر تُو مری تکمیل تو کر جا
آ ، آخری آیت کی طرح دل میں اُتر جا
یا رب ہو مرا دینِ غزل اور افق گیر
ہر لحظہ بُلند اس کا زمانے میں ہو در جا
یہ دُھوپ ہے وہ جس نے کبھی شاخ نہ دیکھی
چرچا ہے مری فکرِ سحر خیز کا ہر جا
کیا جانئے کیا بات ہے ذہنوں کے افق پر
بجلی نہیں چمکی ابھی بادل نہیں گر جا
اس شہر میں بکتے ہیں پرندوں کے نشیمن
اے طائرِ امید نے بُھولے سے اُدھر جا
اس ظلم کی بستی سے تو آندھی کی طرح اُٹھ
اس شہر کی گلیاں خس و خاشاک سے بھر جا
پھینکے تھے گُہر جن کی طرف ان کے سروں سے
اب موجِ بلا خیز کی مانند گُزر جا
ہے رقص کی خواہش تو بگولے کی طرح ناچ
صحرا ہے اگر تنگ خلاؤں میں بِپھر جا
حسرت سے نہ ہاتھوں کی لکیروں کی طرف دیکھ
جا وقت کے ماتھے کی شکن بن کے اُبھر جا
ساجدؔ کو لقب دے نہ مسیحائے غزل کا
اے خلق ! مرے معجزۂ فن سے مُکر جا
اقبال ساجد
اپنی زمین 13 اپریل 1977ء
اپنی زمین 13 اپریل 1977ء