غزل: تماشا اب اپنا بناتے نہیں ہیں

دو روز قبل یوٹیوب پر جنابِ خمارؔ بارہ بنکوی کو سن رہا تھا، جو اپنی دستخطی بحر متقارب میں ترنم سے شعر پڑھتے جارہے تھے۔ حضرتِ خمارؔ کو پہلی بار غالباً ۱۹۹۶ میں جشنِ قتیلؔ کی وڈیو کیسٹ کے توسط سے سنا تھا، مگر ان کا ترنم ذہن میں ایسا نقش ہوا کہ آج بھی کہیں بحرِ متقارب میں کوئی غزل پڑھنے سننے کو ملے تو لامحالہ ذہن ان کی طرز پر وہ اشعار گنگنانا شروع کردیتا ہے۔ بہرکیف، جنابِ خمارؔ کو سنتے سنتے کچھ اشعار اسی بحر میں موزوں ہوگئے، سوچا آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا چلوں۔ امید ہے احباب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تماشا اب اپنا بناتے نہیں ہیں
ترے غم میں خود کو جلاتے نہیں ہیں

دلِ جاں بلب کو، سنواروں تو کیونکر؟
یہاں بھول کر بھی وہ آتے نہیں ہیں!

انہیں ظرف بھی دے، بمع حسن یارب
کسی کو وہ خاطر میں لاتے نہیں ہیں

نم آنکھوں نے چغلی یہ کی وقتِ رخصت
خوشی سے وہ پھولے سماتے نہیں ہیں

یہ فرقت کا ٖغم ہے، یا بدلا ہے فیشن؟
وہ زلفوں میں گل اب لگاتے نہیں ہیں!

ہوا کو ہے یوں بھی، یقیں جیتنے کا
کہ اب ہم دیا ہی جلاتے نہیں ہیں

ڈرا اب نہ تیغ و سناں سے، کہ ہم لوگ
کٹاتے تو ہیں، سر جھکاتے نہیں ہیں!

ہزیمت مقدر نہ ہو کیوں؟ کہ جب ہم
نصابِ جہاد اب پڑھاتے نہیں ہیں

نصیبوں سے ملتا ہے تمغہ یہ راحلؔ
میاں! داغِ دل یوں چھپاتے نہیں ہیں!
 

akhtarwaseem

محفلین
دو روز قبل یوٹیوب پر جنابِ خمارؔ بارہ بنکوی کو سن رہا تھا، جو اپنی دستخطی بحر متقارب میں ترنم سے شعر پڑھتے جارہے تھے۔ حضرتِ خمارؔ کو پہلی بار غالباً ۱۹۹۶ میں جشنِ قتیلؔ کی وڈیو کیسٹ کے توسط سے سنا تھا، مگر ان کا ترنم ذہن میں ایسا نقش ہوا کہ آج بھی کہیں بحرِ متقارب میں کوئی غزل پڑھنے سننے کو ملے تو لامحالہ ذہن ان کی طرز پر وہ اشعار گنگنانا شروع کردیتا ہے۔ بہرکیف، جنابِ خمارؔ کو سنتے سنتے کچھ اشعار اسی بحر میں موزوں ہوگئے، سوچا آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا چلوں۔ امید ہے احباب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تماشا اب اپنا بناتے نہیں ہیں
ترے غم میں خود کو جلاتے نہیں ہیں

دلِ جاں بلب کو، سنواروں تو کیونکر؟
یہاں بھول کر بھی وہ آتے نہیں ہیں!

انہیں ظرف بھی دے، بمع حسن یارب
کسی کو وہ خاطر میں لاتے نہیں ہیں

نم آنکھوں نے چغلی یہ کی وقتِ رخصت
خوشی سے وہ پھولے سماتے نہیں ہیں

یہ فرقت کا ٖغم ہے، یا بدلا ہے فیشن؟
وہ زلفوں میں گل اب لگاتے نہیں ہیں!

ہوا کو ہے یوں بھی، یقیں جیتنے کا
کہ اب ہم دیا ہی جلاتے نہیں ہیں

ڈرا اب نہ تیغ و سناں سے، کہ ہم لوگ
کٹاتے تو ہیں، سر جھکاتے نہیں ہیں!

ہزیمت مقدر نہ ہو کیوں؟ کہ جب ہم
نصابِ جہاد اب پڑھاتے نہیں ہیں

نصیبوں سے ملتا ہے تمغہ یہ راحلؔ
میاں! داغِ دل یوں چھپاتے نہیں ہیں!

اب آپ جیسے شَہسوار بھی اِسی فورم پہ طبع آزمائی کریں گے، تو مجھ جیسے گٹھنوں کے
بل رینگنے والے طفلِ مکتب کہاں جائیں گے؟ حضور آپ اپنے لیئے محفل کے کسی
اور گوشے کا انتخاب فرمائیے اور محفل کے اِس حصے کو بارونق رکھنے کی ذمہ داری مجھ
جیسوں پر ہی چھوڑ دیجیئے۔ علامہ صاحب فرما گئے ہیں:
" تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر "
 
اب آپ جیسے شَہسوار بھی اِسی فورم پہ طبع آزمائی کریں گے، تو مجھ جیسے گٹھنوں کے
بل رینگنے والے طفلِ مکتب کہاں جائیں گے؟ حضور آپ اپنے لیئے محفل کے کسی
اور گوشے کا انتخاب فرمائیے اور محفل کے اِس حصے کو بارونق رکھنے کی ذمہ داری مجھ
جیسوں پر ہی چھوڑ دیجیئے۔ علامہ صاحب فرما گئے ہیں:
" تُو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر "

حضور آپ کی محبت کا شکریہ:) باقی ہم بھی مبتدیان مکتب ہی ہیں، سو یہاں رہیں یا کہیں اور، مقصد تو اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنا ہی ہے :)
 

فیضان قیصر

محفلین
دو روز قبل یوٹیوب پر جنابِ خمارؔ بارہ بنکوی کو سن رہا تھا، جو اپنی دستخطی بحر متقارب میں ترنم سے شعر پڑھتے جارہے تھے۔ حضرتِ خمارؔ کو پہلی بار غالباً ۱۹۹۶ میں جشنِ قتیلؔ کی وڈیو کیسٹ کے توسط سے سنا تھا، مگر ان کا ترنم ذہن میں ایسا نقش ہوا کہ آج بھی کہیں بحرِ متقارب میں کوئی غزل پڑھنے سننے کو ملے تو لامحالہ ذہن ان کی طرز پر وہ اشعار گنگنانا شروع کردیتا ہے۔ بہرکیف، جنابِ خمارؔ کو سنتے سنتے کچھ اشعار اسی بحر میں موزوں ہوگئے، سوچا آپ احباب کی خدمت میں پیش کرتا چلوں۔ امید ہے احباب اپنی قیمتی آراء سے ضرور نوازیں گے۔

دعاگو،
راحلؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تماشا اب اپنا بناتے نہیں ہیں
ترے غم میں خود کو جلاتے نہیں ہیں

دلِ جاں بلب کو، سنواروں تو کیونکر؟
یہاں بھول کر بھی وہ آتے نہیں ہیں!

انہیں ظرف بھی دے، بمع حسن یارب
کسی کو وہ خاطر میں لاتے نہیں ہیں

نم آنکھوں نے چغلی یہ کی وقتِ رخصت
خوشی سے وہ پھولے سماتے نہیں ہیں

یہ فرقت کا ٖغم ہے، یا بدلا ہے فیشن؟
وہ زلفوں میں گل اب لگاتے نہیں ہیں!

ہوا کو ہے یوں بھی، یقیں جیتنے کا
کہ اب ہم دیا ہی جلاتے نہیں ہیں

ڈرا اب نہ تیغ و سناں سے، کہ ہم لوگ
کٹاتے تو ہیں، سر جھکاتے نہیں ہیں!

ہزیمت مقدر نہ ہو کیوں؟ کہ جب ہم
نصابِ جہاد اب پڑھاتے نہیں ہیں

نصیبوں سے ملتا ہے تمغہ یہ راحلؔ
میاں! داغِ دل یوں چھپاتے نہیں ہیں!
ماشاءاللہ راحل صاحب بہت عمدہ اشعار ہیں
 
Top