محمد تابش صدیقی
منتظم
تو نے مہجور کر دیا ہم کو
سخت رنجور کر دیا ہم کو
آپ چلتے ہیں غیر کو نہیں رنج
غم نے کافور کر دیا ہم کو
اپنی برقِ نگاہ سے تم نے
شجرِ طور کر دیا ہم کو
دل بنا عاشقی میں خود مختار
اور مجبور کر دیا ہم کو
ایسی تعریف کی، کہ اے زاہد!
عاشقِ حور کر دیا ہم کو
غم نہیں محتسب، جو توڑا خُم
نشہ نے چور کر دیا ہم کو
جس قدر ہم سے تم ہوئے نزدیک
اس قدر دور کر دیا ہم کو
انجمِ داغ و تیرہ بختی نے
شبِ دیجور کر دیا ہم کو
کبھی بارِ غمِ فراق اتار
تو نے مزدور کر دیا ہم کو
الفتِ ظاہری سے او مغرور!
تو نے مغرور کر دیا ہم کو
ہوئے دارین میں عدو مخذول
حق نے منصور کر دیا ہم کو
تو ہے عریاں تو دستِ وحشت نے
اے پری! عُور کر دیا ہم کو
خوب یا رب! دکھا دیا بتِ چیں
آج فغفور کر دیا ہم کو
ہو گیا مے سے نشۂ عرفاں
نار نے نور کر دیا ہم کو
تھے تو مقہور ہونے کے لائق
بارے مغفور کر دیا ہم کو
٭٭٭
استاد امام بخش ناسخؔ
سخت رنجور کر دیا ہم کو
آپ چلتے ہیں غیر کو نہیں رنج
غم نے کافور کر دیا ہم کو
اپنی برقِ نگاہ سے تم نے
شجرِ طور کر دیا ہم کو
دل بنا عاشقی میں خود مختار
اور مجبور کر دیا ہم کو
ایسی تعریف کی، کہ اے زاہد!
عاشقِ حور کر دیا ہم کو
غم نہیں محتسب، جو توڑا خُم
نشہ نے چور کر دیا ہم کو
جس قدر ہم سے تم ہوئے نزدیک
اس قدر دور کر دیا ہم کو
انجمِ داغ و تیرہ بختی نے
شبِ دیجور کر دیا ہم کو
کبھی بارِ غمِ فراق اتار
تو نے مزدور کر دیا ہم کو
الفتِ ظاہری سے او مغرور!
تو نے مغرور کر دیا ہم کو
ہوئے دارین میں عدو مخذول
حق نے منصور کر دیا ہم کو
تو ہے عریاں تو دستِ وحشت نے
اے پری! عُور کر دیا ہم کو
خوب یا رب! دکھا دیا بتِ چیں
آج فغفور کر دیا ہم کو
ہو گیا مے سے نشۂ عرفاں
نار نے نور کر دیا ہم کو
تھے تو مقہور ہونے کے لائق
بارے مغفور کر دیا ہم کو
٭٭٭
استاد امام بخش ناسخؔ