محمد تابش صدیقی
منتظم
تُو وہ باطن ہے کہ جلباب ہیں تجھ پر لاکھوں
تُو وہ ظاہر ہے کہ بے تاب ہیں مظہر لاکھوں
ہُوں وہ کافر کہ زمانے کے صنم ہیں مرغوب
ہُوں وہ مجنوں کہ مجھے چاہئیں پتھر لاکھوں
نورِ عرفاں جو نہ ہو جہل کی ظلمت میں نہاں
ایک ہی تجھ کو نظر آئیں یہ مظہر لاکھوں
خاک سے سبزہ نکلتا ہے جو مانندِ زباں
ہو گئے زیرِ زمین خاک سخن ور لاکھوں
کیا ہے اے قاتلِ عالم! ترے آگے تلوار؟
تجھ میں تو اور بھی جز قتل ہیں جوہر لاکھوں
خاک ہو جاتے ہیں جیسے سمن و گل ہر سال
ہو گئے خاک گل اندام و سمن بر لاکھوں
دن کو بس ایک ہی خورشید نظر آتا ہے
رات کو جلوہ نما ہوتے ہیں اختر لاکھوں
اعتمادِ سر و سامانِ شہی خاک نہیں
ہو گئے خاک برابر سرِ افسر لاکھوں
آدمی کیا! کہ سنو مجھ سے فرشتوں کا حال
جل گئے شعلۂ ادراک سے شہ پر لاکھوں
آنکھیں ہم رندوں کی اشکوں سے ہیں پُر بہرِ شراب
ایک شیشہ نہیں لبریز ہیں ساغر لاکھوں
تو ہے محبوبِ خدا، صدقے ہو تجھ پر ناسخؔ
امتیں کیا! ترے تابع ہیں پیمبر لاکھوں
٭٭٭
استاد امام بخش ناسخؔ
تُو وہ ظاہر ہے کہ بے تاب ہیں مظہر لاکھوں
ہُوں وہ کافر کہ زمانے کے صنم ہیں مرغوب
ہُوں وہ مجنوں کہ مجھے چاہئیں پتھر لاکھوں
نورِ عرفاں جو نہ ہو جہل کی ظلمت میں نہاں
ایک ہی تجھ کو نظر آئیں یہ مظہر لاکھوں
خاک سے سبزہ نکلتا ہے جو مانندِ زباں
ہو گئے زیرِ زمین خاک سخن ور لاکھوں
کیا ہے اے قاتلِ عالم! ترے آگے تلوار؟
تجھ میں تو اور بھی جز قتل ہیں جوہر لاکھوں
خاک ہو جاتے ہیں جیسے سمن و گل ہر سال
ہو گئے خاک گل اندام و سمن بر لاکھوں
دن کو بس ایک ہی خورشید نظر آتا ہے
رات کو جلوہ نما ہوتے ہیں اختر لاکھوں
اعتمادِ سر و سامانِ شہی خاک نہیں
ہو گئے خاک برابر سرِ افسر لاکھوں
آدمی کیا! کہ سنو مجھ سے فرشتوں کا حال
جل گئے شعلۂ ادراک سے شہ پر لاکھوں
آنکھیں ہم رندوں کی اشکوں سے ہیں پُر بہرِ شراب
ایک شیشہ نہیں لبریز ہیں ساغر لاکھوں
تو ہے محبوبِ خدا، صدقے ہو تجھ پر ناسخؔ
امتیں کیا! ترے تابع ہیں پیمبر لاکھوں
٭٭٭
استاد امام بخش ناسخؔ