مغزل
محفلین
مغزل
تیرگی سرِ مژگاں جگنوؤں کی آسانی
مشکلوں سے ملتی ہے مشکلوں کی آسانی
انتظار کی شب میں صبح جاگ اٹھی ہے
شام سے خفا سی ہے دستکوں کی آسانی
ہر نفس سلگتی ہے چہرگی کو روتی ہے
آئنوں کے جنگل میں حیرتوں کی آسانی
دل سراب زار ایسا عشق میں نہیں ہوتا
تشنگی سلامت اور بارشوں کی آسانی
وصل ایک اندیشہ بُن رہا ہے مدت سے
ہجر میں یقیں کا دکھ واہموں کی آسانی
دھڑکنیں ملامت سی سانس تازیانہ سی
ایسے میں غنیمت ہے آنسوؤں کی آسانی
مطمعن نہ ہوجانا یہ سخن کا صحرا ہے
اس میں کم ہی ملتی ہے آہوؤں کی آسانی
شعر گوئی بھی محمود یار سے عبارت ہے
گر تجھے میسر ہو رتجگوں کی آسانی
م۔م۔مغل
(صبح ۴ بجے)