فرحان محمد خان
محفلین
غزل
تیری نگاہِ ناز بایں شانِ اضطراب
ہم جانِ دردِ عشق و ہم ایمانِ اضطراب
اب تک تو تیرے فیض سے اے عشقِ معتبر
داغِ سکوں سے پاک ہے دامانِ اضطراب
خُوگر نہیں ہے تُو تو بتا ، اے نگاہِ شوق
پھر کون ہے یہ سلسلہ جنبانِ اضطراب
ہر چند نجدِ عشق سے اُٹھے ہزار قیس !
نکلا مگر نہ ایک بھی شایانِ اضطراب
پھر ہے وہیں ، چلا تھا جہاں سے دلِ غریب
آغاز ہی پہ لے گیا پایانِ اضطراب
بے وجہ یہ سکونِ محبت نہیں جگرّ
اُٹھنے کو ہے مگر کوئی طوفانِ اضطراب
تیری نگاہِ ناز بایں شانِ اضطراب
ہم جانِ دردِ عشق و ہم ایمانِ اضطراب
اب تک تو تیرے فیض سے اے عشقِ معتبر
داغِ سکوں سے پاک ہے دامانِ اضطراب
خُوگر نہیں ہے تُو تو بتا ، اے نگاہِ شوق
پھر کون ہے یہ سلسلہ جنبانِ اضطراب
ہر چند نجدِ عشق سے اُٹھے ہزار قیس !
نکلا مگر نہ ایک بھی شایانِ اضطراب
پھر ہے وہیں ، چلا تھا جہاں سے دلِ غریب
آغاز ہی پہ لے گیا پایانِ اضطراب
بے وجہ یہ سکونِ محبت نہیں جگرّ
اُٹھنے کو ہے مگر کوئی طوفانِ اضطراب
جگرؔ مراد آبادی