غزل: تیری یادوں کا دیا قلب میں جلتا ہی ہے

تیری یادوں کا دیا قلب میں جلتا ہی ہے
تیرے دیدار کو دل میرا مچلتا ہی ہے

رنج فرقت مجھے ہر صبح رلاتا ہی ہے
خار کے فرش پہ ہر شام سلاتا ہی ہے

عید کا چاند ہر اک سال نکلتا ہے جب
تیرا غم ہجر کا احساس بڑھاتا ہی ہے

جانے کب ہجر کی راتوں کا صفایا ہوگا
عمر کا شمس ہر اک لمحہ تو ڈھلتا ہی ہے

ہے الگ بات کہ اظہار سے وہ ڈرتا ہے
پھول الفت کا ہر اک قلب میں کھلتا ہی ہے

خوف عقبی سے نہ ہو جس کا جگر ترسیدہ
قوم کے پیسوں سے تہہ خانے کو بھرتا ہی ہے

داغ لگ جائے گناہوں کا اگر دامن پر
توبہ کے پانی سے جو نیک ہو دھلتا ہی ہے

رب نے انعام کیا مجھ پہ تو جلتے کیوں ہو ؟
جس کی تقدیر میں جو ہے اسے ملتا ہی ہے

ظلم ہرگز نہ کرے کوئی کسی پہ ثاقب !
آہ مظلوم کو اللہ تو سنتا ہی ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اس پوری غزل کے قوافی غلط ہیں، ردیف میں ’ہی ہے‘ میں عیب تنافر بھی ہے اور روانی بھی متاثر ہے۔ ’ہی رہا‘ کیا جا سکتا ہے
 

فرقان احمد

محفلین
اصلاح تو اساتذہ کریں گے تاہم ایک بات قابل غور ہے کہ آپ کا شعری لہجہ یہاں موجود بیشتر شعراء سے منفرد ہے۔ شاید اس کی وجہ یہی رہی ہو گی کہ آپ کا تعلق نیپال سے ہے۔ مجھے امید ہے، آپ بہت جلد بہت اچھے شاعر بن جائیں گے، ان شاء اللہ العزیز!
 
مطلع میں مچلتا اور جلتا قوافی استعمال کیے گئے ہیں۔ اب یہاں حرف ت اور الف حروفِ وصل اور خروج ہیں یا پھر انھیں ردیف کا حصہ سمجھ لیں۔ اصل قوافی اب جل ، مچل وغیرہ ہیں۔ اس طرح اب ڈھلتا ، ملتا ، نکلتا ، سنبھلتا وغیرہ درست ہونگے۔ بڑھاتا ، سلاتا وغیرہ غلط ہیں۔
 
Top