ثاقب سراج نگری
محفلین
تیری یادوں کا دیا قلب میں جلتا ہی ہے
تیرے دیدار کو دل میرا مچلتا ہی ہے
رنج فرقت مجھے ہر صبح رلاتا ہی ہے
خار کے فرش پہ ہر شام سلاتا ہی ہے
عید کا چاند ہر اک سال نکلتا ہے جب
تیرا غم ہجر کا احساس بڑھاتا ہی ہے
جانے کب ہجر کی راتوں کا صفایا ہوگا
عمر کا شمس ہر اک لمحہ تو ڈھلتا ہی ہے
ہے الگ بات کہ اظہار سے وہ ڈرتا ہے
پھول الفت کا ہر اک قلب میں کھلتا ہی ہے
خوف عقبی سے نہ ہو جس کا جگر ترسیدہ
قوم کے پیسوں سے تہہ خانے کو بھرتا ہی ہے
داغ لگ جائے گناہوں کا اگر دامن پر
توبہ کے پانی سے جو نیک ہو دھلتا ہی ہے
رب نے انعام کیا مجھ پہ تو جلتے کیوں ہو ؟
جس کی تقدیر میں جو ہے اسے ملتا ہی ہے
ظلم ہرگز نہ کرے کوئی کسی پہ ثاقب !
آہ مظلوم کو اللہ تو سنتا ہی ہے ۔
تیرے دیدار کو دل میرا مچلتا ہی ہے
رنج فرقت مجھے ہر صبح رلاتا ہی ہے
خار کے فرش پہ ہر شام سلاتا ہی ہے
عید کا چاند ہر اک سال نکلتا ہے جب
تیرا غم ہجر کا احساس بڑھاتا ہی ہے
جانے کب ہجر کی راتوں کا صفایا ہوگا
عمر کا شمس ہر اک لمحہ تو ڈھلتا ہی ہے
ہے الگ بات کہ اظہار سے وہ ڈرتا ہے
پھول الفت کا ہر اک قلب میں کھلتا ہی ہے
خوف عقبی سے نہ ہو جس کا جگر ترسیدہ
قوم کے پیسوں سے تہہ خانے کو بھرتا ہی ہے
داغ لگ جائے گناہوں کا اگر دامن پر
توبہ کے پانی سے جو نیک ہو دھلتا ہی ہے
رب نے انعام کیا مجھ پہ تو جلتے کیوں ہو ؟
جس کی تقدیر میں جو ہے اسے ملتا ہی ہے
ظلم ہرگز نہ کرے کوئی کسی پہ ثاقب !
آہ مظلوم کو اللہ تو سنتا ہی ہے ۔