غزل - تیغ اب اٹھائیں گے یا قلم اٹھائیں گے

شاہین فصیح ربانی

غزل

تیغ اب اُٹھائیں گے، یا قلم اُٹھائیں گے
سوچ کر اُٹھائیں گے جو قدم اُٹھائیں گے

نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے
دل ہے کانچ کا لیکن کوہِ غم اُٹھائیں گے

کیا ہوا نہیں پیتے، ذوق ہے مگر اعلیٰ
ہم اگر اُٹھائیں گے، جامِ سم اُٹھائیں گے

اپنی وضعداری کی لاج ہم کو رکھنا ہے
اب بھی ناز والوں کے ناز ہم اُٹھائیں گے

جو ازل سے بزدل ہیں اور جفا کے قائل ہیں
کس طرح محبت کا وہ الم اُٹھائیں گے

راستے بھی ہیں دشواراور سفر بھی صدیوں کا
جس قدر ہوا ممکن بوجھ کم اُٹھائیں گے

فرطَِ انبساط ان کی زندگی کا حصہ ہے
خوش نصیب ہم ایسے لطفِ غم اُٹھائیں گے

یوں قسم اٹھانا تو جھوٹ پر دلالت ہے
ہم فصیح سچّے ہیں, کیوں قسم اُٹھائیں گے
 

محمداحمد

لائبریرین
نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے
دل ہے کانچ کا لیکن کوہِ غم اُٹھائیں گے

فرطِ انبساط ان کی زندگی کا حصہ ہے
خوش نصیب ہم ایسے لطفِ غم اُٹھائیں گے

بہت خوب فصیح بھائی، اچھی غزل ہے۔ خاص طور پر یہ دو اشعار تو بہت ہی خوب ہیں۔

نذرانہ تحسین پیشِ خدمت ہے جناب!
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے فصیح صاحب، کیا کہنے

نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے
دل ہے کانچ کا لیکن کوہِ غم اُٹھائیں گے

واہ واہ واہ، بہت خوب
 
اچھی غزل ہے، آخری شعر سمجھ میں نہیں آیا، قسم اٹھانا کون سا محاورہ ہے؟

غزل کو سراہنے پر تہِ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
قسم اٹھانا'' اردو محاورہ نہیں دراصل یہ پنجابی کے زیرِ اثر در آیا ہے لیکن کیا یہ ارود کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکتا؟
 
Top