ایس فصیح ربانی
محفلین
شاہین فصیح ربانی
غزل
تیغ اب اُٹھائیں گے، یا قلم اُٹھائیں گے
سوچ کر اُٹھائیں گے جو قدم اُٹھائیں گے
نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے
دل ہے کانچ کا لیکن کوہِ غم اُٹھائیں گے
کیا ہوا نہیں پیتے، ذوق ہے مگر اعلیٰ
ہم اگر اُٹھائیں گے، جامِ سم اُٹھائیں گے
اپنی وضعداری کی لاج ہم کو رکھنا ہے
اب بھی ناز والوں کے ناز ہم اُٹھائیں گے
جو ازل سے بزدل ہیں اور جفا کے قائل ہیں
کس طرح محبت کا وہ الم اُٹھائیں گے
راستے بھی ہیں دشواراور سفر بھی صدیوں کا
جس قدر ہوا ممکن بوجھ کم اُٹھائیں گے
فرطَِ انبساط ان کی زندگی کا حصہ ہے
خوش نصیب ہم ایسے لطفِ غم اُٹھائیں گے
یوں قسم اٹھانا تو جھوٹ پر دلالت ہے
ہم فصیح سچّے ہیں, کیوں قسم اُٹھائیں گے
غزل
تیغ اب اُٹھائیں گے، یا قلم اُٹھائیں گے
سوچ کر اُٹھائیں گے جو قدم اُٹھائیں گے
نازکی پہ مت جاؤ، بات حوصلے کی ہے
دل ہے کانچ کا لیکن کوہِ غم اُٹھائیں گے
کیا ہوا نہیں پیتے، ذوق ہے مگر اعلیٰ
ہم اگر اُٹھائیں گے، جامِ سم اُٹھائیں گے
اپنی وضعداری کی لاج ہم کو رکھنا ہے
اب بھی ناز والوں کے ناز ہم اُٹھائیں گے
جو ازل سے بزدل ہیں اور جفا کے قائل ہیں
کس طرح محبت کا وہ الم اُٹھائیں گے
راستے بھی ہیں دشواراور سفر بھی صدیوں کا
جس قدر ہوا ممکن بوجھ کم اُٹھائیں گے
فرطَِ انبساط ان کی زندگی کا حصہ ہے
خوش نصیب ہم ایسے لطفِ غم اُٹھائیں گے
یوں قسم اٹھانا تو جھوٹ پر دلالت ہے
ہم فصیح سچّے ہیں, کیوں قسم اُٹھائیں گے