محمد تابش صدیقی
منتظم
جادۂ شوق میں ہر زخم خوشی سے کھایا
ہر نیا زخم ہوا میرے بدن پر پھایا
شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا
میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا
اب تو ہر شخص نظر آتا ہے خود سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا
جب بھی ناکام ہوا میں، تو پکارا اس کو
اس نے الجھا ہوا ہر کام مرا سلجھایا
وادیِ عشق کا رستہ بھی ہے منزل تابشؔ
میں نے دل کو ہے بہت بار یہی سمجھایا
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
ہر نیا زخم ہوا میرے بدن پر پھایا
شمعِ احساس کو ہے ایک شرر کی حسرت
بے حسی کا ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا
میں کہ تھا حسنِ رخِ یار کے دیدار سے خوش
میرا خوش رہنا بھی اک آنکھ نہ اُس کو بھایا
اب تو ہر شخص نظر آتا ہے خود سے بہتر
جب سے اپنے بُتِ پندار کو میں نے ڈھایا
جب بھی ناکام ہوا میں، تو پکارا اس کو
اس نے الجھا ہوا ہر کام مرا سلجھایا
وادیِ عشق کا رستہ بھی ہے منزل تابشؔ
میں نے دل کو ہے بہت بار یہی سمجھایا
٭٭٭
محمد تابش صدیقی