مجید امجد غزل - جاوداں قدروں کی شمعیں بجھ گئیں تو جل اٹھی تقدیرِ دل -مجید امجد

غزل

جاوداں قدروں کی شمعیں بجھ گئیں تو جل اٹھی تقدیرِ دل
اب تو اس مٹی کے ہر ذی روح ذرے میں بھی ہے تصویرِ دلا

اپنے دل کی راکھ چن کر ، کاش ان لمحوں کی بہتی آگ میں
میں بھی اک سیال شعلے کے ورق پر لکھ سکوں تفسیرِ دل

میں نہ سمجھا ورنہ ، ہنگاموں بھری دنیا میں ، اک آہٹ کے سنگ
کوئی تو تھا آج جس کے قہقہ دل میں ہے دامن گیرِ دل


رت بدلتے ہی ، چمن جو ہم صفیر ، اب کے بھی کوسوں دور سے،
آ کے جب اس شاخ پر چہکے ، مرے دل میں بجی زنجیرِ دل

کیا سفر تھا ، بے صدا صدیوں کے پل کے اس طرف اس موڑ تک
پے بہ پے ابھرا، سنہری گرد سے اک نالہ دل گیرِ دل

وار دنیا نے کئے مجھ پر تو امجد میں نے اس گھمسان میں
کس طرح ، جی ہار کر، رکھ دی نیام حرف میں شمشیرِ دل


مجید امجد​
 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
جاوداں قد ( فاعلاتن)
روں کی شمعیں (فاعلاتن)
بجھ گئیں تو (فاعلاتن)
جل اٹھی تق (فاعلاتن)
دیرِ دل (فاعلن)
 
Top