غزل : جاگے ہیں بہت ، جی میں ہے کچھ دیر کو سو لیں - وحید اختر

غزل
جاگے ہیں بہت ، جی میں ہے کچھ دیر کو سو لیں
یہ گردِ سفر ان کی تھکن ، نیند سے دھو لیں

دے اذن خموشی تو گرہ درد کی کھو لیں
دے بے ہُنری جاں کی اماں ہم کو تو بولیں

آنکھوں کے بیابان میں لو چلتی ہے کب سے
مل جائے جو اشکوں کا خریدار تو رولیں

لگتی ہے سدا مفت سبیل اپنے سخن کی
یہ دولتِ بیدار ہے اُن کے لیے جو لیں

یہ تو نہ گلہ ہو گا کہ پارکھ نہیں کوئی
بہتر ہے جواہر کی دکاں دشت میں کھولیں

دیتی ہے اگر زہر ہمیں تلخیِ دوراں
قندِ لبِ جاناں میں بھی لب اپنے ڈبولیں

ہیں پنکھڑیاں لب کی مئے ناب کے ساغر
اس چشمۂ حیواں پہ ذرا ہونٹ بھگولیں

آگے تو ہمیں ہوش کے صحرا میں ہے چلنا
پڑتا ہے جو رستے میں تو میخانے بھی ہولیں

آنکھوں میں ہیں محفوظ ستاروں کے دفینے
مل جائیں جو زرخیز زمینیں انھیں بولیں

گر جائے گی نظروں سے ، اتر جائے گی دل سے
اک اشک سے گر دولتِ گونیں کو تولیں

غیرت کے لیے ننگ ہے اتنا سا بھی احساں
پیاسے کہیں دامن ہی نہ دریا میں بھگولیں

اشکوں سے وحیدؔ آگ کا طوفاں نہ بجھے گا
ان بوندوں میں ہم سات سمندر بھی سمولیں
وحیدؔ اختر
 
Top