گل زیب انجم
محفلین
پنسل جب نہ ملی تو میں نے قلم دوات اٹھائیکیا بتاؤں تجھے بلال اعظم
زندگی کیوں بکھر گئی میری
لوٹ آئی وہ اپنے میکے سے
دیکھ صورت اتر گئی میری
اب گزارہ ہے تین جانوں سے
ایک جاناں گزر گئی میری
آج کل شاعری نہیں لکھتا
جانے پنسل کدھر گئی میری
کھٹ سے دروازہ کھلا اور سیاہی بکھر گئ میری
پہلے سے بھرم تھی کچھ اور جل گئ
تیور دیکھ کر پتہ لگتا قسمت بگڑ گئ میری
بیلنا چیمٹا چمچہ سبھی اوزار دیکھ کر اُس کے
ٹانگیں یوں کانپی کہ پھٹ نکر گئ میری
اب وہ بیمار اور تیمارداری سے میں لاغر لاچار
اُسے خوش فہمی کہ اِسے مار فکر گئ میری
بھلی لگے یا بری لگے کچھ کومنٹس ہی کر دینا
سچ جانو اس شغل میں رات گذر گئ میری