غزل... جب ہونٹوں پہ پیار ترانے آجاتے ہیں...نجم الحسن کاظمی

جب ہونٹوں پہ پیار ترانے آجاتے ہیں
جیون رُت پہ روپ سہانےآجاتے ہیں

ہم تو پھولوں کی خُشبو سے اُکتا کر
تیرے بدن کی باس چرانے آجا تے ہیں

اکثر تیرے مد ہوشوں سے مل کر بھی
کُچھ لوگوں کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں

پل بھر کو تم دل سے بھول بھی جاتے ہو
اس بستی میں بھی ویرانے آجاتے ہیں

جب سجتی ہے محفل ہم دل والوں کی
ہونٹوں پر خود ہی افسانے آجاتے ہیں

ہم پاگل تقدیر کے سُوکھے پنکھٹ پر
ارمانوں کی پیاس بُجھانے آجاتے ہیں

اِ محفل کی رونق قائم رہتی ہے
اپنے چھوڑیں تو بیگا نے آجاتے ہیں

نجم یہاں اس آہ و فغاں کی منڈی میں
ہم تو یونہی درد کمانے آ جاتے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو اچھی ہے لیکن تقطیع ذرا پھر سے کر لیں۔ دوسرے مصرعوں میں چھ رکنی فعلن ہے، شاید تمام پہلے مصرعوں میں ساڑھے پانچ رکنی
 
Top