غزل: جس دن گلیوں میں سنّاٹا لگتا ہے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
کچھ روز قبل عاطف ملک صاحب کی عمدہ غزل پڑھنے کا شرف حاصل ہوا . اس غزل كے ایک شعر نے اپنی ایک حالیہ ناچیز غزل کی یاد دلا دی . لیجیے وہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

جس دن گلیوں میں سنّاٹا لگتا ہے
دِل کو انجانا سا دھڑکا لگتا ہے

دیکھو تو اک بہتا دریا لگتا ہے
سوچو تو ہر خطّہ صحرا لگتا ہے

تم کو بھی کیا میرے جیسا لگتا ہے؟
کیا ہر وعدہ اب اک دھوکہ لگتا ہے؟

کچھ لوگوں کی نظریں ایسی گہری ہیں
تن کپڑوں میں بھی عریاں سا لگتا ہے

دیواروں سے تصویریں یہ کہتی ہیں
سب کچھ ہے تو گھر کیوں سونا لگتا ہے

غیر کا آنگن لگتا ہے رنگین بہت
اپنا آنگن پھیکا پھیکا لگتا ہے

دِل میں گر اک بار ہوس گھر کر جائے
سارا عالم بھی پِھر تھوڑا لگتا ہے

ناممکن ہے ان كے ذہنوں کو پڑھنا
قاتل جن کو ایک مسیحا لگتا ہے

اِس بستی كے سب باشندے اندھے ہیں
آنكھوں والا تو باہر کا لگتا ہے

دنیا کا ارمان وہی بس کرتے ہیں
پل پل مرنا جن کو جینا لگتا ہے

اب کس کس كے پرسے میں جا ئیں عابدؔ
جس کو دیکھو وہ ہی مردہ لگتا ہے

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
مدیر کی آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
واہ علوی صاحب ،نہایت عمدہ غزل ۔
لطف آیا پڑھ کر ۔
جس دن گلیوں میں سنّاٹا لگتا ہے
دِل کو انجانا سا دھڑکا لگتا ہے

تم کو بھی کیا میرے جیسا لگتا ہے؟
کیا ہر وعدہ اب اک دھوکہ لگتا ہے

کچھ لوگوں کی نظریں ایسی گہری ہیں
تن کپڑوں میں بھی عریاں سا لگتا ہے

اِس بستی كے سب باشندے اندھے ہیں
آنكھوں والا تو باہر کا لگتا

اب کس کس كے پرسے میں جا ئیں عابدؔ
جس کو دیکھو وہ ہی مردہ لگتا
ماشاء اللہ
 

فاخر رضا

محفلین
کچھ لوگوں کی نظریں ایسی گہری ہیں
تن کپڑوں میں بھی عریاں سا لگتا ہے
یہ شعر کسی خاتون کی نمائندگی کرتا محسوس ہوتا ہے
میرے خیال میں اچھا ہے. ایک معاشرتی مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے. شاعر عام طور پر بیہودگی کی حد تک تراش خراش explain کرتے ہیں. ایسے شاعروں اور لوگوں کو جوتے مارنے چاہئیں
 
یہ شعر کسی خاتون کی نمائندگی کرتا محسوس ہوتا ہے
میرے خیال میں اچھا ہے. ایک معاشرتی مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے. شاعر عام طور پر بیہودگی کی حد تک تراش خراش explain کرتے ہیں. ایسے شاعروں اور لوگوں کو جوتے مارنے چاہئیں
بڑی عنایت ، فاخر صاحب ! جزاک اللہ .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں !
چھٹے شعر میں ٹائپو بصارت پر گراں گزر رہے ہیں ۔ درست ہوجائیں تو اچھا ہے ۔ مقطع میں بھی وہ ہی کو وہی کرلیجئے ۔
 
بہت خوب! اچھے اشعار ہیں !
چھٹے شعر میں ٹائپو بصارت پر گراں گزر رہے ہیں ۔ درست ہوجائیں تو اچھا ہے ۔ مقطع میں بھی وہ ہی کو وہی کرلیجئے ۔
ظہیر صاحب ، حوصلہ افزائی كے لیے ممنون ہوں . چھٹے شعر میں ٹائپو کی نشان دہی کا شکریہ ! میں نے غور ہی نہیں کیا کہ ’پھیکا‘ میں ’ی‘ دو بار ٹائپ ہو گئی ہے . میرے لیے تو اب تصحیح کی گنجائش نہیں رہی . کوئی منتظم ہی یہ کارِ خیر انجام دے سکتا ہے . مقطع میں ’وہ ہی‘ کو ’وہی‘ کرنا میری ناچیز رائے میں مناسب نہیں . اِس سے مصرعہ وزن میں نہیں رہیگا .
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر صاحب ، حوصلہ افزائی كے لیے ممنون ہوں . چھٹے شعر میں ٹائپو کی نشان دہی کا شکریہ ! میں نے غور ہی نہیں کیا کہ ’پھیکا‘ میں ’ی‘ دو بار ٹائپ ہو گئی ہے . میرے لیے تو اب تصحیح کی گنجائش نہیں رہی . کوئی منتظم ہی یہ کارِ خیر انجام دے سکتا ہے . مقطع میں ’وہ ہی‘ کو ’وہی‘ کرنا میری ناچیز رائے میں مناسب نہیں . اِس سے مصرعہ وزن میں نہیں رہیگا .
علوی صاحب ، وہ ہی کو متروک ہوئے تو ایک صدی سے زیادہ گزرا۔ درست لفظ تو وہی ہے ۔ مصرع کا وزن برابر کرنے کے لئے ظاہر ہے اس میں ایک سبب کا اضافہ کرنا پڑے گا جو آپ کے لئے بالکل بھی مشکل نہیں ۔ اس مصرع کی بنت میں تو بہت گنجائش ہے ۔ میں نے تو صرف آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی ۔
 
علوی صاحب ، وہ ہی کو متروک ہوئے تو ایک صدی سے زیادہ گزرا۔ درست لفظ تو وہی ہے ۔ مصرع کا وزن برابر کرنے کے لئے ظاہر ہے اس میں ایک سبب کا اضافہ کرنا پڑے گا جو آپ کے لئے بالکل بھی مشکل نہیں ۔ اس مصرع کی بنت میں تو بہت گنجائش ہے ۔ میں نے تو صرف آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تھی ۔
ظہیر بھائی ، وضاحت کا شکریہ ! الفاظ کا متروک ہونا میرے لیے اکثر ایک معمہ رہا ہے . معلوم نہیں کون طے کرتا ہے کہ فلاں لفظ اب ترک کر دینا چاہیے . :) ویسے جہاں تک مجھے علم ہے ، ’وہ ہی‘ بدستور استعمال میں ہے . چند حالیہ مثالیں دیکھیے .

وہ ہی مورت، وہ ہی صورت، وہ ہی قدرت کی طرح
اس کو جس نے جیسا سوچا وہ بھی ویسا ہو گیا (ندا فاضلی)

کوئی ضروری نہیں وہ ہی دِل کو شاد کرے
’علینا‘ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے (علینا عترت)

راستے میں چھوڑا ہے ’احمد‘ اس ستم گر نے
وہ ہی میرا رستہ تھا وہ ہی میری منزل تھا (محمد عتیق احمد)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی ، وضاحت کا شکریہ ! الفاظ کا متروک ہونا میرے لیے اکثر ایک معمہ رہا ہے . معلوم نہیں کون طے کرتا ہے کہ فلاں لفظ اب ترک کر دینا چاہیے . :) ویسے جہاں تک مجھے علم ہے ، ’وہ ہی‘ بدستور استعمال میں ہے . چند حالیہ مثالیں دیکھیے .

وہ ہی مورت، وہ ہی صورت، وہ ہی قدرت کی طرح
اس کو جس نے جیسا سوچا وہ بھی ویسا ہو گیا (ندا فاضلی)

کوئی ضروری نہیں وہ ہی دِل کو شاد کرے
’علینا‘ آپ طبیعت بہل بھی سکتی ہے (علینا عترت)

راستے میں چھوڑا ہے ’احمد‘ اس ستم گر نے
وہ ہی میرا رستہ تھا وہ ہی میری منزل تھا (محمد عتیق احمد)
علوی صاحب ، آپ کا سوال مجھے حیرت میں ڈال گیا ۔ نہایت غیر متوقع تھا۔ زبان تو جیتی جاگتی شے ہے اور وقت کے ساتھ غیر محسوس طریقے پر تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ زبان کے اصول و قواعد کوئی گھر بیٹھ کر نہیں بناتا بلکہ اس کا استعمال متعین کرتا ہے۔ اس کے استعمال کرنے والے اسے غیر محسوس طریقے پر متاثر کرتے رہتے ہیں ۔ ماہرینِ لسانیات تو محض ان قواعد اور مستثنیات کو دریافت کرکے تحریری صورت میں منضبط کرتے ہیں۔ فصیح اور غیر فصیح کا فیصلہ وہ نہیں کرتے بلکہ کسی لفظ کو یہ حیثیت اہلِ زبان کے استعمال سے ملتی ہے ۔ اور اہلِ زبان میں بھی مسلم الثبوت شعرا اور ادبا کا استعمال سند مانا جاتا ہے ۔ عام لوگوں کی زبان ذرا مختلف ہوسکتی ہے۔

اردو زبان کا عام رویہ ہے کہ جب کسی اسم اشارہ کو "ہی" سے پہلے منسلک کیا جاتا ہے تو اس میں ہائے مختفی کو حذف کرکے بولا جاتا ہے ۔ یہ ہی کے بجائے یہی اور وہ ہی کے بجائے وہی بولا جاتا ہے۔ ہم ہی کو ہمی اور اُس ہی کو اُسی بولا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ الفاظ قدیم اردو میں ہائے مختفی کے ساتھ ہی لکھے جاتے تھے لیکن بتدریج متروک ہوگئے۔ یہ مسئلہ تو کب کا طے ہو چکا اور ان کے فصیح یا غیر فصیح ہونے کا تنازع تو اب سرے سے اٹھتا ہی نہیں ہے۔ ثبوت میں بلا مبالغہ سینکڑوں اسناد پیش کی جاسکتی ہیں۔ میں فی الوقت چند عام دستیاب کتب کے حوالے دے دیتا ہوں ۔ اگر دلچسپی ہو تو تفصیل کے لئے انہیں دیکھ لیجیے۔
مقدمہ نوراللغات ۔ صفحہ 12 ( فصیح اور غیر فصیح الفاظ کی فہرست)
لغاتِ روزمرہ از شمس الرحمٰن فاروقی ۔ صفحہ 338 ۔
اردو املا از رشید حسن خان صفحہ 296۔ رشید حسن خان اور شمس الرحمٰن فاروقی صاحبان کا مرتبہ اردو لسانیات میں کسی تعارف کا محتاج نہیں
مصباح القواعد از مولانا فتح محمد جالندھری ۔ صفحہ 131 ( باب اسم اشارہ)
اردو قواعد از بابائے اردومولوی عبدالحق ۔صفحہ 183 ( ضمیر اشارہ کی ذیل میں)

علاوہ ازیں آپ کسی بھی مستند عصری ادیب کی کتاب اٹھا لیجئے ، آپ کو "وہ ہی" کہیں نظر نہیں آئے گا ۔

جہاں تک آپ کی محولہ بالا تین شعری مثالوں کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ اب ایسا ظلم مت کیجیے۔ :):) :)سند میں ہمیشہ اساتذہ اور ماہر زبان دانوں کی عبارات پیش کی جاتی ہیں۔ مجھ جیسے عام اور معمولی درجے کے شاعر اور ادیب سند میں پیش نہیں کیے جاتے۔ گمان اغلب ہے کہ ان شعرا نے یا تو وزن کی مجبوری سے وہ ہی استعمال کیا ہے یا پھر وہ اس لفظ کی غیر فصیح اور متروک حیثیت سے واقف نہیں۔ آپ کے مصرع میں تو وزن کی کوئی مجبوری نہیں بہت آسانی سے وہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
چھٹے شعر میں ٹائپو کی نشان دہی کا شکریہ ! میں نے غور ہی نہیں کیا کہ ’پھیکا‘ میں ’ی‘ دو بار ٹائپ ہو گئی ہے . میرے لیے تو اب تصحیح کی گنجائش نہیں رہی . کوئی منتظم ہی یہ کارِ خیر انجام دے سکتا ہے
مصرع کی کتابت کا پھیکا پن دور کردیا گیا ہے۔
 
علوی صاحب ، آپ کا سوال مجھے حیرت میں ڈال گیا ۔ نہایت غیر متوقع تھا۔ زبان تو جیتی جاگتی شے ہے اور وقت کے ساتھ غیر محسوس طریقے پر تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔ زبان کے اصول و قواعد کوئی گھر بیٹھ کر نہیں بناتا بلکہ اس کا استعمال متعین کرتا ہے۔ اس کے استعمال کرنے والے اسے غیر محسوس طریقے پر متاثر کرتے رہتے ہیں ۔ ماہرینِ لسانیات تو محض ان قواعد اور مستثنیات کو دریافت کرکے تحریری صورت میں منضبط کرتے ہیں۔ فصیح اور غیر فصیح کا فیصلہ وہ نہیں کرتے بلکہ کسی لفظ کو یہ حیثیت اہلِ زبان کے استعمال سے ملتی ہے ۔ اور اہلِ زبان میں بھی مسلم الثبوت شعرا اور ادبا کا استعمال سند مانا جاتا ہے ۔ عام لوگوں کی زبان ذرا مختلف ہوسکتی ہے۔

اردو زبان کا عام رویہ ہے کہ جب کسی اسم اشارہ کو "ہی" سے پہلے منسلک کیا جاتا ہے تو اس میں ہائے مختفی کو حذف کرکے بولا جاتا ہے ۔ یہ ہی کے بجائے یہی اور وہ ہی کے بجائے وہی بولا جاتا ہے۔ ہم ہی کو ہمی اور اُس ہی کو اُسی بولا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ الفاظ قدیم اردو میں ہائے مختفی کے ساتھ ہی لکھے جاتے تھے لیکن بتدریج متروک ہوگئے۔ یہ مسئلہ تو کب کا طے ہو چکا اور ان کے فصیح یا غیر فصیح ہونے کا تنازع تو اب سرے سے اٹھتا ہی نہیں ہے۔ ثبوت میں بلا مبالغہ سینکڑوں اسناد پیش کی جاسکتی ہیں۔ میں فی الوقت چند عام دستیاب کتب کے حوالے دے دیتا ہوں ۔ اگر دلچسپی ہو تو تفصیل کے لئے انہیں دیکھ لیجیے۔
مقدمہ نوراللغات ۔ صفحہ 12 ( فصیح اور غیر فصیح الفاظ کی فہرست)
لغاتِ روزمرہ از شمس الرحمٰن فاروقی ۔ صفحہ 338 ۔
اردو املا از رشید حسن خان صفحہ 296۔ رشید حسن خان اور شمس الرحمٰن فاروقی صاحبان کا مرتبہ اردو لسانیات میں کسی تعارف کا محتاج نہیں
مصباح القواعد از مولانا فتح محمد جالندھری ۔ صفحہ 131 ( باب اسم اشارہ)
اردو قواعد از بابائے اردومولوی عبدالحق ۔صفحہ 183 ( ضمیر اشارہ کی ذیل میں)

علاوہ ازیں آپ کسی بھی مستند عصری ادیب کی کتاب اٹھا لیجئے ، آپ کو "وہ ہی" کہیں نظر نہیں آئے گا ۔

جہاں تک آپ کی محولہ بالا تین شعری مثالوں کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ اب ایسا ظلم مت کیجیے۔ :):) :)سند میں ہمیشہ اساتذہ اور ماہر زبان دانوں کی عبارات پیش کی جاتی ہیں۔ مجھ جیسے عام اور معمولی درجے کے شاعر اور ادیب سند میں پیش نہیں کیے جاتے۔ گمان اغلب ہے کہ ان شعرا نے یا تو وزن کی مجبوری سے وہ ہی استعمال کیا ہے یا پھر وہ اس لفظ کی غیر فصیح اور متروک حیثیت سے واقف نہیں۔ آپ کے مصرع میں تو وزن کی کوئی مجبوری نہیں بہت آسانی سے وہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ظہیر بھائی ، اِس قدر محنت سے آپ نے جو دلائل عنایت فرمائے ہیں ، ان کا بے حد شکریہ ! یہ سب ماہرین زبان كے اقوال ہیں سو ان سے قطعی انکار نہیں . لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مجھے یہاں ’وہی‘ نہیں جچ رہا . بہر حال ، اِس پر مزید غور کروں گا .
 
Top