عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
کچھ روز قبل عاطف ملک صاحب کی عمدہ غزل پڑھنے کا شرف حاصل ہوا . اس غزل كے ایک شعر نے اپنی ایک حالیہ ناچیز غزل کی یاد دلا دی . لیجیے وہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
جس دن گلیوں میں سنّاٹا لگتا ہے
دِل کو انجانا سا دھڑکا لگتا ہے
دیکھو تو اک بہتا دریا لگتا ہے
سوچو تو ہر خطّہ صحرا لگتا ہے
تم کو بھی کیا میرے جیسا لگتا ہے؟
کیا ہر وعدہ اب اک دھوکہ لگتا ہے؟
کچھ لوگوں کی نظریں ایسی گہری ہیں
تن کپڑوں میں بھی عریاں سا لگتا ہے
دیواروں سے تصویریں یہ کہتی ہیں
سب کچھ ہے تو گھر کیوں سونا لگتا ہے
غیر کا آنگن لگتا ہے رنگین بہت
اپنا آنگن پھیکا پھیکا لگتا ہے
دِل میں گر اک بار ہوس گھر کر جائے
سارا عالم بھی پِھر تھوڑا لگتا ہے
ناممکن ہے ان كے ذہنوں کو پڑھنا
قاتل جن کو ایک مسیحا لگتا ہے
اِس بستی كے سب باشندے اندھے ہیں
آنكھوں والا تو باہر کا لگتا ہے
دنیا کا ارمان وہی بس کرتے ہیں
پل پل مرنا جن کو جینا لگتا ہے
اب کس کس كے پرسے میں جا ئیں عابدؔ
جس کو دیکھو وہ ہی مردہ لگتا ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
کچھ روز قبل عاطف ملک صاحب کی عمدہ غزل پڑھنے کا شرف حاصل ہوا . اس غزل كے ایک شعر نے اپنی ایک حالیہ ناچیز غزل کی یاد دلا دی . لیجیے وہ غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
جس دن گلیوں میں سنّاٹا لگتا ہے
دِل کو انجانا سا دھڑکا لگتا ہے
دیکھو تو اک بہتا دریا لگتا ہے
سوچو تو ہر خطّہ صحرا لگتا ہے
تم کو بھی کیا میرے جیسا لگتا ہے؟
کیا ہر وعدہ اب اک دھوکہ لگتا ہے؟
کچھ لوگوں کی نظریں ایسی گہری ہیں
تن کپڑوں میں بھی عریاں سا لگتا ہے
دیواروں سے تصویریں یہ کہتی ہیں
سب کچھ ہے تو گھر کیوں سونا لگتا ہے
غیر کا آنگن لگتا ہے رنگین بہت
اپنا آنگن پھیکا پھیکا لگتا ہے
دِل میں گر اک بار ہوس گھر کر جائے
سارا عالم بھی پِھر تھوڑا لگتا ہے
ناممکن ہے ان كے ذہنوں کو پڑھنا
قاتل جن کو ایک مسیحا لگتا ہے
اِس بستی كے سب باشندے اندھے ہیں
آنكھوں والا تو باہر کا لگتا ہے
دنیا کا ارمان وہی بس کرتے ہیں
پل پل مرنا جن کو جینا لگتا ہے
اب کس کس كے پرسے میں جا ئیں عابدؔ
جس کو دیکھو وہ ہی مردہ لگتا ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
مدیر کی آخری تدوین: