محمد تابش صدیقی
منتظم
جنوں کا کون سا عالم ہے یہ خدا جانے
تجھے بھی بھولتے جاتے ہیں تیرے دیوانے
چراغِ طور ہے روشن، نہ آتشِ نمرود
اب اپنی آگ میں خود جل رہے ہیں پروانے
نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور آیا
بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے
مہ و نجوم ستاروں کی بھیک دیتے رہے
زمیں کی گود میں پلتے رہے سیہ خانے
اندھیری رات میں سونا ہی جس کی فطرت ہو
وہ صبحِ نو کے تقاضوں کو کس طرح جانے
٭٭٭
قابلؔ اجمیری
تجھے بھی بھولتے جاتے ہیں تیرے دیوانے
چراغِ طور ہے روشن، نہ آتشِ نمرود
اب اپنی آگ میں خود جل رہے ہیں پروانے
نہیں یہ ہوش کہ کیونکر ترے حضور آیا
بس اتنا یاد ہے ٹھکرا دیا تھا دنیا نے
مہ و نجوم ستاروں کی بھیک دیتے رہے
زمیں کی گود میں پلتے رہے سیہ خانے
اندھیری رات میں سونا ہی جس کی فطرت ہو
وہ صبحِ نو کے تقاضوں کو کس طرح جانے
٭٭٭
قابلؔ اجمیری