عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے!
ابھی حال ہی میں عاطف صاحب نے ایک غزل عنایت فرمائی تھی ’تمام دہر ہی جیسے کسی خمار میں ہے .‘ اس غزل کی زمین مجھے پسند آئی اورمیں اس زمین میں ایک غزل لے کر حاضر ہوں . چونکہ اِس غزل کا القا مجھے عاطف صاحب کی غزل سے ملا تھا، یہ ناچیز کاوش میں عاطف صاحب کو نذر کرتا ہوں . لیکن اِس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ دیگر احباب اِس پر اپنی رائے كے اظہار سے پرہیز کریں . حسب سابق آپ كے تأثرات کا انتظار رہیگا .
جہان غرق ہراسِ فضا ئے تار میں ہے
ہر اک چراغ ہواؤں كے اختیار میں ہے
بلائیں گھوم رہی ہیں زمیں كے گِرد ایسے
زمین جیسے مسلسل خود اک مدار میں ہے
جو کارواں سے میں بِچھڑا تو مجھ کو علم ہوا
نشانِ منزلِ مقصود رہگزار میں ہے
کوئی کسی کی مدد بے غرض نہیں کرتا
خیالِ سود و زیاں بھی تو کار و بار میں ہے
دلوں کا فرق تصادم سے خاک کم ہو گا
کہ حَل تو ایسے مسائل کا صرف پیار میں ہے
گرے بزور تو پتھر کو کاٹ دے پانی
مثال عزم و جسارت کی آبشار میں ہے
کھڑا ہے راہ میں پِھر ظلم و جبر کا دریا
زمانہ پِھر کسی موسیٰ كے انتظار میں ہے
کہے گا حشر میں اپنا فسانہ اے عؔابد
یہ بےگناہ کا خوں جو ستونِ دار میں ہے
نیازمند،
عرفان عؔابد
ابھی حال ہی میں عاطف صاحب نے ایک غزل عنایت فرمائی تھی ’تمام دہر ہی جیسے کسی خمار میں ہے .‘ اس غزل کی زمین مجھے پسند آئی اورمیں اس زمین میں ایک غزل لے کر حاضر ہوں . چونکہ اِس غزل کا القا مجھے عاطف صاحب کی غزل سے ملا تھا، یہ ناچیز کاوش میں عاطف صاحب کو نذر کرتا ہوں . لیکن اِس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ دیگر احباب اِس پر اپنی رائے كے اظہار سے پرہیز کریں . حسب سابق آپ كے تأثرات کا انتظار رہیگا .
جہان غرق ہراسِ فضا ئے تار میں ہے
ہر اک چراغ ہواؤں كے اختیار میں ہے
بلائیں گھوم رہی ہیں زمیں كے گِرد ایسے
زمین جیسے مسلسل خود اک مدار میں ہے
جو کارواں سے میں بِچھڑا تو مجھ کو علم ہوا
نشانِ منزلِ مقصود رہگزار میں ہے
کوئی کسی کی مدد بے غرض نہیں کرتا
خیالِ سود و زیاں بھی تو کار و بار میں ہے
دلوں کا فرق تصادم سے خاک کم ہو گا
کہ حَل تو ایسے مسائل کا صرف پیار میں ہے
گرے بزور تو پتھر کو کاٹ دے پانی
مثال عزم و جسارت کی آبشار میں ہے
کھڑا ہے راہ میں پِھر ظلم و جبر کا دریا
زمانہ پِھر کسی موسیٰ كے انتظار میں ہے
کہے گا حشر میں اپنا فسانہ اے عؔابد
یہ بےگناہ کا خوں جو ستونِ دار میں ہے
نیازمند،
عرفان عؔابد