غزل : جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں - اقبال ساجد

غزل
جہاں بھونچال بنیادِ فصیل و در میں رہتے ہیں
ہمارا حوصلہ دیکھو ہم ایسے گھر میں رہتے ہیں

دِکھاوے کے لئے خُوشحالیاں لکھتے ہیں کاغذ پر
ہم اس دھرتی پہ ورنہ رزق کے چکّر میں رہتے ہیں

ضرورت ہی لئے پھرتی ہے ہم کو دربدر ورنہ!!
ہم اُن میں سے نہیں جو جستجوئے زر میں رہتے ہیں

لہو سے جو اُٹھائی تھیں وہ بُنیادیں نہیں اپنی
یہی محسوس ہوتا ہے پرائے گھر میں رہتے ہیں

کبھی بیداریاں قسمت تھیں ، اب نیندیں مقّدر ہیں
ہمارا کیا ہے ہم تو شہرِ خواب آور میں رہتے ہیں

مزا مل جائے گا تجھ کو بھی سنگِ راہ بننے کا
ترے جیسے تو میرے پاؤں کی ٹھوکر میں رہتے ہیں

وہ خوشبودار چہرے جو نگاہ و دل کے مرکز ہیں
خدا جانے بچھڑ کر ہم سے کس محور میں رہتے ہیں

دُکھوں کے باغ میں ہر وقت شاخِ زخم پھلتی ہے
ازل سے یہ شجر ، کربِ ثمر آور میں رہتے ہیں

کوئی شہکارِ فن تکمیل کا دعوٰی نہیں کرتا
اُدھورے پَن کے دُکھ ساجدؔ ہر اک پیکر میں رہتے ہیں
اقبال ساجد
 
آخری تدوین:
Top