مہدی نقوی حجاز
محفلین
غزل (تازہ)
جیسے جیسے ہوا ہے اندھیرا
میں نے کم کر دیا ہے اندھیرا
رات جیسے وعید ہے دن کی
نور کی بد دعا ہے اندھیرا
دور رہتا ہے، میرے اندر کی
آگ سے آشنا ہے اندھیرا
بجھ رہا ہے ہماری پھونکوں سے
جیسے کوئی دیا ہے اندھیرا
پھر اندھیری سحر نمایاں ہے
رات کو کھا چکا ہے اندھیرا
دیکھتا ہے مجھے اندھیرے میں
کیا کوئی بھیڑیا ہے اندھیرا؟
کچھ منافق کھڑے ہیں آگ لیے
ان کے اندر چھپا ہے اندھیرا
اس کے اندر بھی روشنی ہے کہیں
کوئی بہروپیا ہے اندھیرا
ایک دن ٹک گیا تھا دن میں بھی
یوں امر ہو گیا ہے اندھیرا
کچھ دکانوں میں ہیں دیے روشن
اور وہاں بک رہا ہے اندھیرا
صبح گاہے حجازؔ سے ملنے
شام سے جاگتا ہے اندھیریا
مہدی نقوی حجازؔ
جیسے جیسے ہوا ہے اندھیرا
میں نے کم کر دیا ہے اندھیرا
رات جیسے وعید ہے دن کی
نور کی بد دعا ہے اندھیرا
دور رہتا ہے، میرے اندر کی
آگ سے آشنا ہے اندھیرا
بجھ رہا ہے ہماری پھونکوں سے
جیسے کوئی دیا ہے اندھیرا
پھر اندھیری سحر نمایاں ہے
رات کو کھا چکا ہے اندھیرا
دیکھتا ہے مجھے اندھیرے میں
کیا کوئی بھیڑیا ہے اندھیرا؟
کچھ منافق کھڑے ہیں آگ لیے
ان کے اندر چھپا ہے اندھیرا
اس کے اندر بھی روشنی ہے کہیں
کوئی بہروپیا ہے اندھیرا
ایک دن ٹک گیا تھا دن میں بھی
یوں امر ہو گیا ہے اندھیرا
کچھ دکانوں میں ہیں دیے روشن
اور وہاں بک رہا ہے اندھیرا
صبح گاہے حجازؔ سے ملنے
شام سے جاگتا ہے اندھیریا
مہدی نقوی حجازؔ
آخری تدوین: