ایم اے راجا
محفلین
پروین شاکر مرحومہ کے خیال سے متاثر ایک غزل عرض ہے۔
کسی دن ترے غم بھلا ہی تو دیں گے
مگر داغ، انکی گواہی تو دیں گے
نکلتے ہیں شعلے جو باتوں سے تیری
کسی دن مجھے وہ جلا ہی تو دیں گے
سرِ شام بہتے ہیں آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روز تجھ کو مٹا ہی تو دیں گے
کسی کی دعاؤں کے بادل گھنیرے
سرِ دشت لُو سے بچا ہی تو دیں گے
مکر ہی تو جائیں گے میرے گواہ سب
مگر چہرے اُن کے گواہی تو دیں گے
غریبِ وطن پر ترے شہر والے
نئی پھر سے تہمت لگا ہی تو دیں گے
سرِ بام میں نے دِیا جو دھرا ہے
یہ طوفاں کسی دن بجھا ہی تو دیں گے
پہاڑوں سے اونچے مرے دکھ ہیں راجا
خدا سے یہ مجھ کو ملا ہی تو دیں گے
کسی دن ترے غم بھلا ہی تو دیں گے
مگر داغ، انکی گواہی تو دیں گے
نکلتے ہیں شعلے جو باتوں سے تیری
کسی دن مجھے وہ جلا ہی تو دیں گے
سرِ شام بہتے ہیں آنکھوں سے آنسو
یہ اِک روز تجھ کو مٹا ہی تو دیں گے
کسی کی دعاؤں کے بادل گھنیرے
سرِ دشت لُو سے بچا ہی تو دیں گے
مکر ہی تو جائیں گے میرے گواہ سب
مگر چہرے اُن کے گواہی تو دیں گے
غریبِ وطن پر ترے شہر والے
نئی پھر سے تہمت لگا ہی تو دیں گے
سرِ بام میں نے دِیا جو دھرا ہے
یہ طوفاں کسی دن بجھا ہی تو دیں گے
پہاڑوں سے اونچے مرے دکھ ہیں راجا
خدا سے یہ مجھ کو ملا ہی تو دیں گے