فرحان محمد خان
محفلین
غزل
حسنِ معنی کی قسم جلوۂ صورت کی قسم
تُو ہی فردوس ہے فردوسِ محبت کی قسم
حُسن کے معجزۂ وحدت و کثرت کی قسم
چشمِ حیرت میں ہی سب کچھ سرِ حیرت کی قسم
تُجھ کو دیکھا مگر اِسطرح کے دیکھا ہی نہیں
اپنی کم مائگیِ جرات و ہمت کی قسم
مُجھ سے کچھ دل نے کہا تھا ابھی سچ ہوکہ نہ ہو
حُسنِ کافر، تری معصوم شرارت کی قسم
ظلم کیا، اب تو کرم بھی ہے گوارا مجھ کو
تیری اس اشک بھری چشمِ نِدامت کی قسم
اِک نظر دیکھ تو لے پُھول کھلے ہیں کیا کیا
ناوکِ غم کی قسم، سینۂ حسرت کی قسم
دل کی دنیا پہ ہے اِک اور ہی عالم طاری
نگۂ نازکے اِقرارِ محبت کی قسم
تُو بھی اب سامنے آئے تو لُٹا دوں تجھ پر
تیری غیرت کی قسم اپنی حمیّت کی قسم
مجھ سے چھپنا تجھے زیبا نہیں اے پیکرِحسن
میں محبت ہی محبت ہوں محبت کی قسم
نگہِ حُسن ہی سے حُسن کو ہم دیکھتے ہیں
مذہبِ عشق کی پاکیزہ شریعت کی قسم
تیرا احسان مٹاتا ہے مٹا دے مُجھ کو
کون کھائے گا تری چشمِ مُروّت کی قسم
اک ترے واسطے خود عشق ہے جنت بکنار
شبنمِ اشک و گُلِ داغِ محبت کی قسم
اب ترے حُسن کے جلوے نہیں روکے رُکتے
نگہِ شوق کی بیتاب طبیعت کی قسم
صبحِ عشرت بھی جو اب آئے تو دیکھوں نہ اُسے
اپنی محبوبۂ شامِ شبِ فرقت کی قسم
اب تجھے میری محبت کا یقیں ہوکہ نہ ہو
میں نہ کھاوں گا ترے دردِ محبت کی قسم
تُو بھی اب وہ نہیں جو خود کو نظر آتا ہے
سینۂ عشق کی پوشیدہ امانت کی قسم
نگہِ ناز میں سب کچھ تو ہے یہ بات کہاں
خلشِ درد ! ترے حُسنِ نزاکت کی قسم
اب تُجھے دیکھ کے مرنا بھی گوارا ہے مجھے
غمِ عشرت کی قسم، اشکِ مسّرت کی قسم
تیرے ہمراہ ہیں جان و دل و ایماں سب کچھ
تیری آنکھوں کے پیامِ دمِ رخصت کی قسم
اب بھی ہیں تیرے تصور سے وہی راز و نیاز
اپنے اُجڑے ہوئے آغوشِ٭ محبت کی قسم
خلوتِ خاص کو اِک دن تو بنا دے جلوت
تُجھے اپنے جِگرِؔ شوخ طبیعت کی قسم
حسنِ معنی کی قسم جلوۂ صورت کی قسم
تُو ہی فردوس ہے فردوسِ محبت کی قسم
حُسن کے معجزۂ وحدت و کثرت کی قسم
چشمِ حیرت میں ہی سب کچھ سرِ حیرت کی قسم
تُجھ کو دیکھا مگر اِسطرح کے دیکھا ہی نہیں
اپنی کم مائگیِ جرات و ہمت کی قسم
مُجھ سے کچھ دل نے کہا تھا ابھی سچ ہوکہ نہ ہو
حُسنِ کافر، تری معصوم شرارت کی قسم
ظلم کیا، اب تو کرم بھی ہے گوارا مجھ کو
تیری اس اشک بھری چشمِ نِدامت کی قسم
اِک نظر دیکھ تو لے پُھول کھلے ہیں کیا کیا
ناوکِ غم کی قسم، سینۂ حسرت کی قسم
دل کی دنیا پہ ہے اِک اور ہی عالم طاری
نگۂ نازکے اِقرارِ محبت کی قسم
تُو بھی اب سامنے آئے تو لُٹا دوں تجھ پر
تیری غیرت کی قسم اپنی حمیّت کی قسم
مجھ سے چھپنا تجھے زیبا نہیں اے پیکرِحسن
میں محبت ہی محبت ہوں محبت کی قسم
نگہِ حُسن ہی سے حُسن کو ہم دیکھتے ہیں
مذہبِ عشق کی پاکیزہ شریعت کی قسم
تیرا احسان مٹاتا ہے مٹا دے مُجھ کو
کون کھائے گا تری چشمِ مُروّت کی قسم
اک ترے واسطے خود عشق ہے جنت بکنار
شبنمِ اشک و گُلِ داغِ محبت کی قسم
اب ترے حُسن کے جلوے نہیں روکے رُکتے
نگہِ شوق کی بیتاب طبیعت کی قسم
صبحِ عشرت بھی جو اب آئے تو دیکھوں نہ اُسے
اپنی محبوبۂ شامِ شبِ فرقت کی قسم
اب تجھے میری محبت کا یقیں ہوکہ نہ ہو
میں نہ کھاوں گا ترے دردِ محبت کی قسم
تُو بھی اب وہ نہیں جو خود کو نظر آتا ہے
سینۂ عشق کی پوشیدہ امانت کی قسم
نگہِ ناز میں سب کچھ تو ہے یہ بات کہاں
خلشِ درد ! ترے حُسنِ نزاکت کی قسم
اب تُجھے دیکھ کے مرنا بھی گوارا ہے مجھے
غمِ عشرت کی قسم، اشکِ مسّرت کی قسم
تیرے ہمراہ ہیں جان و دل و ایماں سب کچھ
تیری آنکھوں کے پیامِ دمِ رخصت کی قسم
اب بھی ہیں تیرے تصور سے وہی راز و نیاز
اپنے اُجڑے ہوئے آغوشِ٭ محبت کی قسم
خلوتِ خاص کو اِک دن تو بنا دے جلوت
تُجھے اپنے جِگرِؔ شوخ طبیعت کی قسم
جگرؔ مراد آبادی
٭نوٹ ایک شخص نے آغوش کی تذکیر پہ اعتراض کیا تھا۔ مگر ان کا اعتراض غلط ہے ۔ تذکیر و تانیث دونوں طرح جائزہ ہے اور کہا جاتا ہے (جگر )