غزل : خلش نہ ہو تو مہ و سال تک نہیں ملتی - اختر عثمان

غزل
خلش نہ ہو تو مہ و سال تک نہیں ملتی
ہوائے قریہِ پامال تک، نہیں ملتی

اڑو کہ آئینہِ نیلمیں بلاتا ہے
وہ دھوپ کنجِ پر و بال تک نہیں ملتی

نکل چلو کہ یہ دنیا جمال دوست نہیں
یہاں تو دادِ خد و خال تک نہیں ملتی

کہاں وہ دور کہ ہم سے ہزار ہا تھے یہاں
کہاں یہ وقت کہ تمثال تک نہیں ملتی

خوشا وہ لفظ کہ مرہم تھے اور اب یوں ہے
وہ رسمِ پرسشِ احوال تک نہیں ملتی

یہ استخوان، یہ صحرا، یہ کرگسوں کے غول
ذرا سنبھل کے، یہاں کھال تک نہیں ملتی

ہنر معاملہِ قیل و قال سے ہے ورا
کبھی کبھی خبرِ حال تک نہیں ملتی

وہ رفتگاں کی روش، وہ خلش، وہ فن کی کشش
جدید عہد میں پاتال تک نہیں ملتی
اخترعثمان
 
Top