پیاسا صحرا
محفلین
خموشی بول اٹھے ھر نظر پیغام ھوجائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ھو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ھوجائے
میں وہ آدم گزیدہ ھوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ھو جائے
مثال ایسی ھےاس دورِ خرد کے ھوشمندوں کی
نہ ھو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ھو جائے
شکیب اپنے تعارف کیلیے یہ بات کافی ھے
ھم اس سے بچ کے چلتے ھیں جو رستہ عام ھو جائے
یہ سناٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ھو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں جنگلوں میں شام ھوجائے
میں وہ آدم گزیدہ ھوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ھو جائے
مثال ایسی ھےاس دورِ خرد کے ھوشمندوں کی
نہ ھو دامن میں ذرہ اور صحرا نام ھو جائے
شکیب اپنے تعارف کیلیے یہ بات کافی ھے
ھم اس سے بچ کے چلتے ھیں جو رستہ عام ھو جائے