مہدی نقوی حجاز
محفلین
غزل
آج کل میں شام کو پینے لگا ہوں عادتاً
خوش نہیں ہوں زندگی سے، جی رہا ہوں عادتاً
اس نے اپنے یار کی پھر بات چھیڑی دفعتاً
اور میں باتوں میں یوں ہی ہنس پڑا ہوں عادتاً
میں نہ موچی ہوں، نہ وہ سلنے کے قابل ہیں مگر
بیٹھے بیٹھے زخم دل کے سی رہا ہوں عادتاً
جانتا ہوں ہر عمل پابندِ قسمت ہے مگر
کیا کروں انسان ہوں، محوِ دعا ہوں عادتاً
اپنے گھر کا راستہ اب یاد ہے مجھ کو مگر
آتے جاتے اس کا رستہ پو چھتا ہوں عادتاً
جبکہ اب کی بار رنج و غم زیادہ تھے مگر
روتے روتے پھر اچانک چپ ہوا ہوں عادتاً
ایک مدت سے میں صحرا گرد ہوں لیکن حجازؔ
ایک مدت شہر میں دیکھا گیا ہوں عادتاً
مہدی نقوی حجازؔ
آج کل میں شام کو پینے لگا ہوں عادتاً
خوش نہیں ہوں زندگی سے، جی رہا ہوں عادتاً
اس نے اپنے یار کی پھر بات چھیڑی دفعتاً
اور میں باتوں میں یوں ہی ہنس پڑا ہوں عادتاً
میں نہ موچی ہوں، نہ وہ سلنے کے قابل ہیں مگر
بیٹھے بیٹھے زخم دل کے سی رہا ہوں عادتاً
جانتا ہوں ہر عمل پابندِ قسمت ہے مگر
کیا کروں انسان ہوں، محوِ دعا ہوں عادتاً
اپنے گھر کا راستہ اب یاد ہے مجھ کو مگر
آتے جاتے اس کا رستہ پو چھتا ہوں عادتاً
جبکہ اب کی بار رنج و غم زیادہ تھے مگر
روتے روتے پھر اچانک چپ ہوا ہوں عادتاً
ایک مدت سے میں صحرا گرد ہوں لیکن حجازؔ
ایک مدت شہر میں دیکھا گیا ہوں عادتاً
مہدی نقوی حجازؔ