یاس غزل : خون کے گھونٹ بلانوش پیے جاتے ہیں - مرزا یاس یگانہ چنگیزی

غزل
خون کے گھونٹ بلانوش پیے جاتے ہیں
خیر ساقی کی مناتے ہیں جیے جاتے ہیں

ایک تو درد ملا اُس پہ یہ شاہانہ مزاج
ہم غریبوں کو بھی کیا تحفے دیے جاتے ہیں

آگ بجھ جائے مگر پیاس بجھائے نہ بجھے
پیاس ہے یا کوئی ہَوکا پیے جاتے ہیں

دولتِ عشق بھی مانگے سے کہیں ملتی ہے
ایسے ہی اہلِ ہوس راند دیے جاتے ہیں

نہ گیا خوابِ فراموش کا سودا نہ گیا
جاگتے سوتے تجھے یاد کیے جاتے ہیں

خوب سیکھا ہے سلام آپ کے دیوانوں نے
شام دیکھیں نہ سحر سجدے کیے جاتے ہیں

نشۂ حسن کی یہ لہر الٰہی توبہ !
تشنہ کام آنکھوں ہی آنکھوں میں پیے جاتے ہیں

دل ہے پہلو میں کہ اُمید کی چنگاری ہے
اب تک اتنی ہے حرارت کہ جیے جاتے ہیں

ڈوبتا ہے نہ ٹھہرنا ہے سفینہ دل کا
دم اُلٹتا ہے مگر سانس لیے جاتے ہیں

کیا خبر تھی کہ یگانہؔ کا ارادہ یہ ہے
ڈوب کر پار اُترنے کے لیے جاتے ہیں
مرزا یاسؔ یگانہ چنگیزی
 
Top