اقبال عظیم غزل: درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں

درد بڑھ کر خود دوا ہو جائے تو ہم کیا کریں
چارہ گر ہم سے خفا ہو جائے تو ہم کیا کریں

عین ممکن تھا کہ ہم بھی غم سے پا جاتے نجات
دل مگر غم آشنا ہو جائے تو ہم کیا کریں

ہم زباں سے کچھ کہیں تو آپ کا شکوہ بجا
کوئی آنسو لب کشا ہو جائے تو ہم کیا کریں

اپنی جانب سے تو کی ہم نے ہمیشہ احتیاط
پھر بھی بھولے سے خطا ہو جائے تو ہم کیا کریں

ہم سزا کے مستحق ہوتے تو کوئی غم نہ تھا
بے خطا حکمِ سزا ہو جائے تو ہم کیا کریں

ظلم سے ہم ڈر گئے یہ تم سے کس نے کہہ دیا
ظلم قانوناً روا ہو جائے تو ہم کیا کریں

معذرت کرنے کو ہم کر لیں، مگر کس جرم کی
بے سبب کوئی خفا ہو جائے تو ہم کیا کریں

بے وفا کہہ کر تمھیں ہم خود بھی پچھتائے مگر
بے رخی حد سے سوا ہو جائے تو ہم کیا کریں

شکوہ سنجی کی ہمیں اقبالؔ عادت تو نہیں
زندگی صبر آزما ہو جائے تو ہم کیا کریں

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
 
Top