عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
آپ سب کو آنے والے نئے سال کی دلی مبارکباد ! اِس سال كے جاتے جاتے ایک غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
درد دِل میں جو بیتی رات سے ہے
اس کو نسبت کہاں نجات سے ہے
مجھ کو امید جس كے ساتھ سے ہے
اس کو پرہیز میرے ہاتھ سے ہے
بےرخی اس کی، موت کیوں نہ بنے
زندگی جس كے التفات سے ہے
تیرے آگے فقط جہان ہے کیا
یہ تقابل تو کائنات سے ہے
وہ جو میں نے کبھی کہی ہی نہیں
ان کو شکوہ اس ایک بات سے ہے
صرف اک بوجھ ہیں زمین پہ ہَم
کیا سروکار پِھر ثبات سے ہے
موت كے ساتھ کیسے جاؤگے
پیار اتنا اگر حیات سے ہے
ہَم کو اوروں کا کوئی خوف نہیں
ہَم کو خطرہ خود اپنی ذات سے ہے
لے كے تلوار کیا کروں عابدؔ
کام مجھ کو قلم دوات سے ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
آپ سب کو آنے والے نئے سال کی دلی مبارکباد ! اِس سال كے جاتے جاتے ایک غزل پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
درد دِل میں جو بیتی رات سے ہے
اس کو نسبت کہاں نجات سے ہے
مجھ کو امید جس كے ساتھ سے ہے
اس کو پرہیز میرے ہاتھ سے ہے
بےرخی اس کی، موت کیوں نہ بنے
زندگی جس كے التفات سے ہے
تیرے آگے فقط جہان ہے کیا
یہ تقابل تو کائنات سے ہے
وہ جو میں نے کبھی کہی ہی نہیں
ان کو شکوہ اس ایک بات سے ہے
صرف اک بوجھ ہیں زمین پہ ہَم
کیا سروکار پِھر ثبات سے ہے
موت كے ساتھ کیسے جاؤگے
پیار اتنا اگر حیات سے ہے
ہَم کو اوروں کا کوئی خوف نہیں
ہَم کو خطرہ خود اپنی ذات سے ہے
لے كے تلوار کیا کروں عابدؔ
کام مجھ کو قلم دوات سے ہے
نیازمند ،
عرفان عابدؔ