محمد وارث
لائبریرین
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
غالب کی لاجواب غزل ہے اور میڈم نورجہاں نے بہت دلکش انداز سے گائی ہے، کافی عرصے سے تلاش میں ہوں اگر کوئی دوست پوسٹ کر سکیں تو بقول غالب کے ہی:
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ، خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہوگی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی، نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
غالب کی لاجواب غزل ہے اور میڈم نورجہاں نے بہت دلکش انداز سے گائی ہے، کافی عرصے سے تلاش میں ہوں اگر کوئی دوست پوسٹ کر سکیں تو بقول غالب کے ہی:
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی