غزل: درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے ٭ تابش

شہزاد احمد کی زمین میں ایک کاوش احباب کی بصارتوں کی نذر:

درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے
رب کے ہوتے ہوئے اوروں کو بلاتا کیا ہے

کامیابی کے لیے چاہیے سعیِ پیہم
ہاتھ پر ہاتھ دھرے خواب سناتا کیا ہے

وادیِ عشق میں کافی ہے مجھے راہِ حسینؓ
مجھ کو رستہ کسی مجنوں کا بتاتا کیا ہے

حاکمِ شہر! ترے ہاتھ پہ خوں ہے اِس کا
تربتِ شہر پہ اب پھول چڑھاتا کیا ہے

گر تجھے وقت ملے اپنے گریباں میں بھی جھانک
ہر گھڑی دوسروں پر خاک اڑاتا کیا ہے

ہے ترا قول و عمل نورِ ہدیٰ سے عاری
تو محبت میں فقط گھر کو سجاتا کیا ہے

ہر کوئی اپنے مفادات میں گم ہے تابشؔ
خود غرض دور میں زخم اپنا دکھاتا کیا ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب تابش بھائی !! دعوتِ فکر وعمل دیتے ہوئے اشعار!!
آپ نے تو پچھلے کئی ماہ میں بہت اچھی اور اعلیٰ پائے کی شاعری لکھی ہے ۔ اب ڈھونڈھ ڈھونڈ کر پڑھ رہاہوں ۔
اللہ عزو جل آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور استقامت بخشے ! آمین ۔
 
بہت خوب تابش بھائی !! دعوتِ فکر وعمل دیتے ہوئے اشعار!!
آپ نے تو پچھلے کئی ماہ میں بہت اچھی اور اعلیٰ پائے کی شاعری لکھی ہے ۔ اب ڈھونڈھ ڈھونڈ کر پڑھ رہاہوں ۔
اللہ عزو جل آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور استقامت بخشے ! آمین ۔
آمین
جزاک اللہ خیر
 
Top