غزل - دریائے غم کا راہ سے ہٹنا محال ہے

احباب کے ذوقِ مطالعہ کی نذرایک غزل

دریائے غم کا راہ سے ہٹنا محال ہے
اور آدھے راستے سے پلٹنا محال ہے

یھ وہ شب وصال نھیں ھے کھ بیت جائے
تنھائیوں کی رات ھے کٹنا محال ہے

دل چاھتوں کی دھوپ کو ترسے گا اب سدا
بادل کدورتوں کے ھیں چھٹنا محال ہے

عزم و یقیں کو خوف نے معدوم کر دیا
اب درمیاں کے فاصلے گھٹنا محال ہے

اب جبکہ سامنا ھے ھمیں شاہ مات کا
اب وقت کی بساط پلٹنا محال ہے

بے اختیار ھوں یھ بتایا پرند نے
اڑتے ھوئے پروں کا سمٹنا محال ہے

ٹکڑا ھوں اک زمین کا ایسا فصیح میں
جس مزید حصوں میں بٹنا محال ہے


شاھین فصیح ربانی
 

ش زاد

محفلین
اب تجھ سے اختلاف بھی کرنا محال ہے
میں سوچ لوں تو سوچ لوں ورنا محال ہے

ایسا عجیب ربط کہ بے ربط سا لگے
اتنا مُہیب خوف کے ڈرنا محال ہے

زاھد کلیم
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے شاہین فصیح۔ لیکن دو باتیں۔
ایک تو یہ کہ یہاں ہائے ہوز ان پیج کے صوتی کی طرح ’او‘ o کی کنجی پر ہے۔
دوسرے یہ کہ اگر آپ کے پاس ان پیج فائل ہے تو دو بارہ ٹائپ کرنے کی محنت کرنے کی ضرورت نہیں۔
 
Top