غزل : دستارِ خود سری میں ہوں ننگِ کفن میں ہوں - سرمدؔ صہبائی

غزل
دستارِ خود سری میں ہوں ننگِ کفن میں ہوں
کھلتا نہیں نجانے میں کس پیرہن میں ہوں

رہتا ہے مجھ سے میرا ہی ہمزاد ہمکلام
تنہا ہوں اور پھر بھی کسی انجمن میں ہوں

دل پر ہیں میری بجھتی ہوئی خواہشوں کے داغ
ہوں آفتاب سایہِ جبرِ گہن میں ہوں

گل کر رہا ہے کون مری آتشِ فراق
نارِ ہوس میں کس کی بہشتِ بدن میں ہوں

آنکھوں سے میری کون ہٹائے گا سنگِ شب
عمروں سے دفن میں کسی خوابِ کہن میں ہوں

نظارۂ عدم ہے مرا پردۂ وجود
ظاہر میں ایک وقفۂ چشمِ زدن میں ہوں

رہتی ہے ایک شام سی میرے بدن کے ساتھ
اِک سانولی کے بوسۂ نمکیں دہن میں ہوں

کرتی ہے تار تار مجھے اِک نگاہِ یار
ورنہ تو میں تمام حجابِ سُخن میں ہوں

اک موسمِ ملال ہے اور باغ آرزو
شبنم ہوں اور سیرِگل و یاسمن میں ہوں

اے شامِ مرگ مجھ کو کہاں ڈھونڈتی ہے تو
میں تو خرامِ حرف کہیں موجِ فن میں ہوں

سرمدؔ ہے ایک غربتِ بے نام ہر طرف
میں ہوں دیارِغیر یا اپنے وطن میں ہوں
سرمد صہبائی
 
Top