عزیز حامد مدنی غزل : دشنۂ تیز میں جس زخم کی گہرائی ہے - عزیز حامد مدنی

غزل
دشنۂ تیز میں جس زخم کی گہرائی ہے
میرے سینے میں وہ پہلے سے اُتر آئی ہے

پیکرِ دوست کی اک چھوٹ ہے آئینے میں
خوابِ مستی میں کوئی شعلۂ مینائی ہے

میں نے اب گھر کی بھی زنداں سے ملا دی ہیں حدیں
یو الگ بیٹھ کے جینے میں بھی رسوائی ہے

یہ رسائی ہے تری تجھ کو مبارک غمِ دوست
دل نے بیتابئ دوراں سے جلا پائی ہے

ربط یک سلسلۂ کار ہم آہنگی ہے
عشق کو لوگ سمجھتے ہیں کہ ہرجائی ہے

کس سے کہیے کہ عبادت گہِ اربابِ نظر
سگِ طفلاں ہے کہ زخمِ سرِ سودائی ہے

ختم پر سلسلۂ عہدِ بہاراں آیا
گرم اک صورتِ ہنگامۂ پیدائی ہے

اس شبِ تار میں مستوں کا سبو بھی ہے چراغ
رات اک شعلہِ آفاق چرا لائی ہے

کل سے کچھ اور تھا اندازِ غبارِ صحرا
شہر میں آج کوئی تازہ خبر آئی ہے
عزیز حامد مدنی
1956ء​
 
Top