غزل (دعوی ہے یہ میرا )

گل زیب انجم

محفلین
ہے یہ میرا دعوی
فرما لو اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا,
دعوی ہےمیرا سوچو گے نہ پھرکہیں جانے کا.

میری دھٹرکنوں کی طرح میرے اہل خانہ کو ہے خبر ,
میرے گھر کے در و دیوار ہیں بس تیرےمنتظر,
چلےآؤ کہ تیرے آنے سے ہو جائے گا بہاروں سا منظر,
کہ اب ہو پا نہیں رہا مجھ سے صبر,
ترس گئی ہیں پہلے سے آنکھیں سوچنا نہ اورترسانے کا,
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا .

پورا نہ ہو پائے ایسا وعدہ نہیں کرتا,
ٹوٹ جائے راہ میں ایسا ارادہ نہیں کرتا,
سفر خوابوں کا بھی میں تنہا نہیں کرتا,
یقین اگر نہ آنے آزما لینا مزا آئے گا آزمانے کا,
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا .

میرے آنگن سے پھر جڑ جائے گا سلسلہ بہار کا ,
صلہ تو کچھ پائے گا یہ دل تیرے انتظار کا ,
ناطہ پھر سے جڑ جائے گا گلوں سے گلزار کا,
سوکھی کلیاں کھل جائیں گئی گرانداز ہو بلبل سا گانے کا ,
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا .

سفر سیری کا ایسا بھی دشوار نہیں ,
میرے گھر کے رستے میں حائل کوئی دیوار نہیں ,
پانی مانگو تو پانی ملے گا لہو بھی مانگو تو انکار نہیں ,
برسوں سے منتظر ہوں کس نے کہا تیرا انتظار نہیں ,
بچپن سی شرارتیں کرنا سوچنا بھی نہ شرمانے کا,
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا .

سادگی تجھے زیبا ہے کون کہتا ہے سنورنا تیرا زیب نہیں ,
سچ کی دولت اچھی ہے پا لینا حق کو کچھ فریب نہیں ,
گلے کی طرح میسر ہار کو کہیں اورنشیب نہیں ,
وہی سادگی وہی چاہت کیسے مانوں کے یہ میرا زیب نہیں ,
طالب دید کے چہرے پہ رونق آئے گی کرو تکلف گر مسکرانے کا ,
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا .


دعوی ہے میرا سوچو گے نہ پھرکہیں جانے کا ,
فرما لو اگر اک بار ارادہ سیری تشریف لانے کا .
 
Top