غزل: دلِ مضطر میں وہی سوزِ نہاں ہے کہ جو تھا

احباب گرامی، سلام عرض ہے!
خواجہ حیدر علی آتشؔ کی زمین میں ایک کوشش پیش ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

دلِ مضطر میں وہی سوزِ نہاں ہے کہ جو تھا
انتظارِ کرمِ چارہ گراں ہے کہ جو تھا

دردِ دل ضبط كے شانے پہ گراں ہے کہ جو تھا
اور اک سلسلۂ آہ و فغاں ہے کہ جو تھا

بکھرا بکھرا ہوا شیرازۂ جاں ہے کہ جو تھا
ہر طرف عالمِ آشوب جواں ہے کہ جو تھا

چند روزہ تھی فقط موسمِ گل کی راحت
باغِ دل پِھر سے گرفتارِ خزاں ہے کہ جو تھا

خس و خاشاک کو محفوظ کہاں تک رکھیے
آشیاں کار گہِ برقِ تپاں ہے کہ جو تھا

نیند اجڑی ہوئی آنكھوں سے جدا ہے کہ جو تھی
خواب بیزارِ حقیقت زدگاں ہے کہ جو تھا

حالِ دل کیا ہے وہاں ، یہ تو خدا ہی جانے
لیکن اک جذبۂ بے نام یہاں ہے کہ جو تھا

کوئی آیا نہ مرے بعد سَرِ دشتِ جنوں
خاک پر پا ئے شکستہ کا نشاں ہے کہ جو تھا

جلوۂ حُسْن جو ظاہر ہو تو ہو بھی کیسے
قومِ عشّاق میں وہ شوق کہاں ہے کہ جو تھا

آگہی سے نئے ابھرے ہیں کئی اور سوال
خود كے ہونے پہ نہ ہونے کا گماں ہے کہ جو تھا

آج بھی ہستئ آدم ہے معمّہ کہ جو تھی
فاصلہ عقل سے تا کون و مکاں ہے کہ جو تھا

اپنی منزل سے میں غافل تو نہیں ہوں لیکن
مجھ کو درپیش وہی کارِ جہاں ہے کہ جو تھا

مدّعا کہہ كے بھی ناکام رہے ہَم عابدؔ
لفظ شرمندۂ تقصیرِ زباں ہے کہ جو تھا

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 
آخری تدوین:
بہت عمدہ عرفان بھائی
چند روزہ تھی فقط موسمِ گل کی راحت
باغِ دل پِھر سے گرفتارِ خزاں ہے کہ جو تھا

خس و خاشاک کو محفوظ کہاں تک رکھیے
آشیاں کار گہِ برقِ تپاں ہے کہ جو تھا

آگہی سے نئے ابھرے ہیں کئی اور سوال
خود كے ہونے پہ نہ ہونے کا گماں ہے کہ جو تھا

اپنی منزل سے میں غافل تو نہیں ہوں لیکن
مجھ کو درپیش وہی کارِ جہاں ہے کہ جو تھا
کیا کہنے۔
 
Top