رئیس امروہوی غزل : دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا - رئیس امروہوی

غزل
دل کو احساس کی شدت نے کہیں کا نہ رکھا
خود محبت کو محبت نے کہیں کا نہ رکھا

بوئے گل اب تجھے احساس ہوا بھی کہ تجھے
تیری آوارہ طبیعت نے کہیں کا نہ رکھا

تم کو ہر شخص سے ہے چشمِ مروّت کی امید
تم کو چشمِ مروّت نے کہیں کا نہ رکھا

ہم وہ ہیں جن کو تماشا کدۂ ہستی میں
جلوۂ عالمِ حیرت نے کہیں کا نہ رکھا

دلِ دانا ہمہ خوں ، دیدۂ بینا ہمہ اشک
دیدہ و دل لی لطافت نے کہیں کا نہ رکھا

نگہِ شوق کسی شے پہ ٹہرتی ہی نہیں
اس بصارت کو بصیرت نے کہیں کا نہ رکھا

زہد بے ذوق کو اے بندگیِ دیر و حرم
آستانوں کی عبادت نے کہیں کا نہ رکھا

پہلے یہ شکر کہ ہم حدِ ادب سے نہ بڑھے
اب یہ شکوہ کہ شرافت نے کہیں کا نہ رکھا

مجملاََ ہے یہ مرا ماحصلِ جہد رئیسؔ!
خس کو طوفاں کی رفاقت نے کہیں کا نہ رکھا
رئیس امروہوی
1967ء
 
آخری تدوین:
Top