یاس غزل : دل کی ہوس وہی ہے مگر دل نہیں رہا - مرزا یاس یگانہ چنگیزی

غزل
دل کی ہوس وہی ہے مگر دل نہیں رہا
محمل نشیں تو رہ گیا محمل نہیں رہا

پہنچی نہ اُڑ کے دامنِ عصمت پہ گرد تک
اس خاک اُڑانے کا کوئی حاصل نہیں رہا

رکھتے نہیں کسی سے تسلی کی چشم داشت
دل تک اب اعتبار کے قابل نہیں رہا

آہستہ پاؤں رکھیے قیامت نہ کیجیے
اب کوئی سر اُٹھانے کے قابل نہیں رہا

اک آخری علاج پہ ٹھہرا ہے فیصلہ
بیمار اب امتحان کے قابل نہیں رہا

پروانے اپنی آگ میں جل کر ہوئے تمام
اب کوئی بارِ خاطرِ محفل نہیں رہا

یاد آئی بوئے پیرہنِ یار ناصحا
اپنا دماغ اب کسی قابل نہیں رہا

تکتے ہیں یاسؔ دور سے مُنہ آپ کا ہنوز
آنکھیں تو رہ گئیں مگر اب دل نہیں رہا
مرزا یاس یگانہ چنگیزی
1916ء
 
Top