غزل : دنیا کی کیا مجال ، چمن سے نکال دے - اقبال ساجد

غزل
دنیا کی کیا مجال ، چمن سے نکال دے
مجھ کو حدودِ ملکِ سخن سے نکال دے

طاقت تو ہے عدو میں مگر حوصلہ نہیں
ورنہ مری زبان دہن سے نکال دے

کیا سوچتا ہے ، کاٹ رگ و پے کی رسیاں
اب خون کا عذاب بدن سے نکال دے

ہاتھوں کو خود صلیب بنا ، اپنے واسطے
موقع ہے زندگی کو گُھٹن سے نکال دے

سورج کو سب کے سامنے اب بے نقاب کر
اس چرخ کو نظامِ کٗہن سے نکال دے

پھر دوسروں کے واسطے خوشیوں کا باب کھول
خود کو قیدِ رنج و محن سے نکال دے

مانگی ہے مجھ سے کس نے نئی نیکیوں کی بھیک
کس نے کہا زکوٰۃ سخن سے نکال دے

سینے سے پھر لگائیں گے تجھ کو پرانے لوگ
ساجدؔ جدیدیّت کو تُو فن سے نکال دے
اقبال ساجد
 
Top