غزل: دودھ جیسا جھاگ، لہریں، ریت اور سیپیاں از حسن اکبر کمال

دودھ جیسا جھاگ، لہریں، ریت اور سیپیاں
جِن کو چُنتی پھر رہی ہیں موتیوں سی لڑکیاں

وہ مجھے خوشیاں نہ دے اور میری آنکھیں نم نہ ہوں
ہیں یہ پیماں زندگی کے اور میرے درمیاں

بام و در اُن کے ہوا کس پیار سے چھوتی رہی
چاندنی کی گود میں جب سو رہی تھیں بستیاں

کل یہی بچے سمندر کو مقابِل پائیں گے
آج تیراتے ہیں جو کاغذ کی ننھی کشتیاں

گھومنا پہروں گھنے مہکے ہوئے بَن میں کمال
واپسی میں دیکھنا اپنے ہی قدموں کے نشاں

حسن اکبر کمال
تاریخِ وفات 21 جولائی 2017​
 
آخری تدوین:
Top